Maktaba Wahhabi

301 - 559
جواب: کتاب و سنت کے مطابق والد مرحوم کا اقدام اور آپ کا عمل دونوں ہی محل نظر ہیں۔ کیوں کہ باپ اپنی زندگی میں بیٹیوں کو نظر انداز کر کے بیٹوں کو کوئی چیز ہبہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے ایک غلام بطور ہبہ دیا، میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ کہنے لگیں کہ میں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنانا چاہتی ہوں۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک غلام بطور ہبہ دیا تھا اور آپ کو اس پر گواہ بنانا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ ’’کیا تو نے اپنے تمام بچوں کو اس طرح کا تحفہ دیا ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا، میں نے تمام بچوں کو اس طرح کا تحفہ نہیں دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کیا کرو۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے وہ غلام واپس لے لیا۔‘‘[1] عطیہ کی صورت میں لڑکی اور لڑکے کا لحاظ کیے بغیر اپنی اولاد میں مساویانہ طور پر مال تقسیم کرنا ہوتا ہے، اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل فرمان ایک فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے: ’’عطیہ دیتے وقت اپنی اولاد کے درمیان برابری کیا کرو، اگر (کسی کی کمزوری کے پیش نظر) میں کسی کو زیادہ دینا چاہتا تو عورتیں اس بات کی زیادہ حق دار تھیں کہ انہوں دوسروں سے زیادہ دیا جائے۔‘‘[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے پیش نظرمرحوم کا زندگی میں صرف بیٹوں کو کاروبار کا ہبہ دینا درست نہیں اور اولاد کا عمل اس لیے محل نظر ہے کہ انہوں نے بہنوں کو دوسرے ورثاء کے حصے کاٹ کر زیادہ دیا ہے، یہ عمل بھی صحیح نہیں۔ اب اس کا حل یہ ہے کہ کاروبار کو بھی دوسری جائیداد کی طرح ترکہ میں شامل کیا جائے اور ا سے حاصل ہونے والے منافع تمام ورثاء کو بقدر حصہ دئیے جائیں۔ ورثاء کے حصے مندرجہ ذیل ہیں: دونوں بیویوں کو8/1دے کر باقی 7؍8پانچ بیٹیوں اور نو بیٹوں میں تقسیم کیا جائے۔ سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کاروبار سمیت 304 حصے کیے جائیں۔ 19 حصے ایک بیوی کو، 19 حصے دوسری بیوی کو 28 حصے ایک بیٹے کو اور 14 حصے ہر لڑکی کو دئیے جائیں۔ بیویوں کا حصہ 19 x 2 = 38 لڑکوں کا حصہ 28 x 5 =140 لڑکیوں کا حصہ 14 x 9 = 136 مجموعی حصص =304
Flag Counter