Maktaba Wahhabi

288 - 559
بعد میں کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہو، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان کو خود مختار بنا کر دنیا میں بھیجا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ مال و جائیداد بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اس میں اسے تصرف کرنے کا پورا پورا حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ہر مال دار اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔‘‘[1] اس حدیث کی بناء پر انسان کو اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق ہے لیکن درج ذیل حقائق کو پیش نظر رکھنا ہو گا: ٭ زندگی میں بطور وراثت تقسیم کرنے کا اسے اختیار نہیں، کیوں کہ وراثت اس جائیداد کو کہتے ہیں جو غیر اختیاری طور پر کسی وارث کو منتقل ہو جائے، اس کے لیے وارث کا زندہ ہونا اور مورث کا فوت ہونا بنیادی شرط ہے۔ ٭ اپنے ورثاء کو محروم کر کے تمام جائیداد فی سبیل اللہ دینا بھی درست نہیں۔ جیسا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اپنا دو تہائی مال صدقہ کرنے کی اجازت طلب کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت نہیں دی۔ [2] ٭ مال میں یہ تصرف کسی ناجائز اور حرام کام نیز حرام کاری کے لیے نہ ہو، اگر ایسا کیا گیا تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی باز پرس ہو گی۔ ٭ جائز تصرف کرتے وقت بھی کسی وارث کو محروم کرنا مقصود نہ ہو۔ جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسا کیا گیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مرنے کے بعد اسے بہت برا بھلا کہا بلکہ آپ نے فرمایا: ’’اگر مجھے پہلے علم ہوتا تو میں اسے مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دفن کرتا۔‘‘[3] ٭ اگر یہ تصرف ہبہ کے طور پر اولاد کے لیے ہے تو بیٹے اور بیٹیوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جائے، اگر مساویانہ نہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایسے ظلم و ستم پر گواہ نہیں بنتا، آپ نے اسے جائز قرار نہیں دیا۔‘‘ [4] ٭ اگر یہ تصرف بطور وصیت ہے تو کل جائیداد کے3/1سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں خاص وصیت کی ہے۔[5] نیز یہ وصیت کسی وارث کے حق میں نہ ہو۔[6] مندرجہ بالا شرائط کو ملحوظ رکھ کر مناسب حد تک اولاد کو ہبہ تو دیا جا سکتا ہے لیکن سارا مال دینے کی یا وراثت کے ضابطہ کے
Flag Counter