Maktaba Wahhabi

27 - 559
متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کسی چیز کو اپنی زبان سے بطور جھوٹ نہ کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے تاکہ اللہ پر جھوٹ باندھنے لگو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے والے کامیابی سے محروم ہی رہتے ہیں۔‘‘ [1] بہرحال نااہل مفتیوں کے فتاویٰ سے جو علمی، دینی اور معاشرتی نقصانات ہوتے ہیں، انہیں ہم آئندہ کسی محفل میں بیان کریں گے سردست ایک حدیث پیش خدمت ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کسی مفتی نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو عمل کرنے والے کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا۔‘‘ [2] بہرحال دینی اور شرعی مسائل میں غلط فتویٰ دینا یا راحج کے بجائے مرجوح بات بتانا بہت بڑی خیانت ہے، اس کی سنگینی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درج بالا حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ بلاشبہ فتویٰ پوچھنے اور فتویٰ دینے کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک سے شروع ہوتا ہے۔ پندرہ سو سال کے طویل عرصہ میں مفتیان کرام نے اس شعبے کی اہمیت کے پیش نظر اس کا خصوصی اہتمام کیا ہے، تمام اہل اسلام اکثر اپنے دینی اور دنیاوی امور میں ان کی طرف رجوع کرتے ہیں، ان امور کا تعلق خواہ عقائد و عبادات سے ہو یا معاملات و اخلاق سے یا باہمی اختلافات و نزاعات سے، ہرحال میں وہ ان کے متعلق شریعت کا حکم معلوم کرنے کے لیے مفتیان امت سے مدد لیتے رہے اور ان حضرات نے افتاء کو اپنا فریضہ منصبی تصور کرتے ہوئے ہمیشہ ان کی صحیح راہنمائی کی ہے وللہ الحمد۔ منصب افتاء اور مفتی کی عظمت شان کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دو مقامات پر فتویٰ کی نسبت اپنی ذات اقدس کی طرف کی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ يَسْتَفْتُوْنَكَ فِي النِّسَآءِ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِيْهِنَّ﴾[3] ’’اور لوگ آپ سے عورتوں کے بارے میں فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تمہیں ان کے متعلق فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يَسْتَفْتُوْنَكَ قُلِ اللّٰهُ يُفْتِيْكُمْ فِي الْكَلٰلَةِ﴾[4] ’’لوگ آپ سے فتویٰ دریافت کرتے ہیں، آپ کہہ دیں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ دین اور علمائے امت نے اس ذمہ داری کو بخیر وخوبی نبھایا اور یہ سلسلہ
Flag Counter