Maktaba Wahhabi

222 - 559
ہے، وضاحت کریں؟ جواب: ماہ رمضان کا آغاز فلکی حساب سے یا کیلنڈروں اور جنتریوں کے مطابق ہی ہوگا بلکہ اس لیے چاند دیکھنا ضروری ہے۔ البتہ رمضان کے چاند کے لیے ایک معتبر مسلمان کی گواہی ہی کافی ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: ’’بلاشبہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے۔‘‘ آپ نے فرمایا: ’’کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں۔‘‘ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں۔‘‘ اس نے عرض کیا جی ہاں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: اے بلال! لوگوں کو اطلاع دے دو کہ وہ کل سے روزہ رکھیں۔[1] اسی طرح حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں نے چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے، اس کے بعد آپ نے خود بھی روزہ رکھا اور لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔[2] یہ دونوں احادیث اس امر پر دلالت کرتی ہیں کہ آغاز رمضان کے سلسلہ میں ایک معتبر آدمی کی گواہی قبول کی جائے گی البتہ عیدین کے چاند کے لیے دو آدمیوں کا ہونا ضروری ہے۔ چنانچہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ رمضان کے آخر میں چاند کے متعلق اختلاف ہوا تو دو دیہاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اللہ کی قسم! ہم نے کل شام چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو روزہ افطار کر لینے کا حکم دیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کل، عید پڑھنے کے لیے عیدہ گاہ جائیں۔‘‘[3] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عیدالفطر کے لیے ایک آدمی کی گواہی کافی نہیں بلکہ کم از کم دو معتبر آدمیوں کا ہونا ضروری ہے جو گواہی دیں کہ ہم نے چاند دیکھا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوثور کے علاوہ تمام علماء کے نزدیک شوال کے چاند پر ایک عادل گواہ کی گواہی جائز نہیں ہے۔ بہرحال چاند دیکھ کر روزہ رکھنا چاہیے یا خود نہیں دیکھا تو گواہی سے ماہِ رمضان کا آغاز کر دیا جائے۔ اگر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے تیس دن پورے کر کے ماہِ رمضان کا آغاز کیا جائے۔
Flag Counter