Maktaba Wahhabi

163 - 559
انسان کو اپنے مال میں تصرف کرنے کے لیے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ہوگا: ٭ یہ تصرف کسی ناجائز اور حرام کام کے لیے نہ ہو اور نہ ہی حرام کاری کے لیے کسی دوسرے کو اپنا مال دیا جائے کیوں کہ ایسا کرنا سخت گناہ ہے۔ ٭ جائز تصرف کرتے وقت کسی وارث کو جائیداد سے محروم رکھنے کی نیت نہ ہو کیوں کہ ایسا کرنے سے اسے جنت سے محروم کیا جا سکتا ہے۔ ٭ اگر یہ تصرف ہبہ کے طور پر ہے تو بیٹے اور بیٹیوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کیا جائے کیوں کہ ایک کو دینا اور دوسرے کو محروم رکھنا ظلم ہے جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ ٭ اگر یہ تصرف بطور وصیت ہے تو وصیت کل جائیداد کے 3/1 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ نیز یہ کسی شرعی وارث کے لیے بھی نہیں ہونی چاہیے کیوں کہ اس کی احادیث میں ممانعت ہے۔ شرائط بالا کے پیش نظر سائل کے بھائی کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی پوری جائیداد، مسجد کے نام وقف نہ کرتے کیوں کہ اس میں شرعاً ممانعت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں اپنے سارے مال کے متعلق وصیت کرنا چاہتا ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘ میں نے عرض کیا، نصف مال دے سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم نصف بھی نہیں دے سکتے۔‘‘ میں نے عرض کیا: ایک تہائی دینے کی اجازت ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک تہائی دے سکتے ہو لیکن یہ بھی بہت زیادہ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اگر اپنے ورثاء کو مال دار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں تنگ دست اورمحتاج چھوڑو جو لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلا کر مانگتے پھریں۔‘‘[1] سائل کے بھائی کی پارسائی اپنی جگہ پر لیکن اس کا اپنی جائیداد میں اس طرح کا تصرف کہ رشتے دار کو محروم کر دیا جائے قطعاً جائز نہیں۔ اس حدیث کا تقاضا ہے کہ جائیداد سے3/1مسجد کے نام وقف کر دیا جائے اور باقی اس کے حقیقی وارث بھائی
Flag Counter