Maktaba Wahhabi

157 - 559
نیز اس کی ایک بہن اور ایک بھائی بھی زندہ ہیں۔ جواب: جو چیز کسی کو ہبہ کی جائے وہ اس کے حوالے کرنا ضروری ہوتا ہے، تب ہبہ مکمل ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’جب کسی نے کوئی چیز ہبہ کی اور دوسرے نے اس پر قبضہ کر لیا لیکن یہ نہیں کہا کہ میں نے اسے قبول کیا تو اس کا کیا حکم ہے۔‘‘ [1] اس کا مقصد یہ ہے کہ ہبہ میں قبضہ کر لینا ہی کافی ہے، زبان سے قبول کرنے کے الفاظ کہنا ضروری نہیں ہیں۔ جبکہ امام شافعی رحمہ اللہ طرفین سے ایجاب و قبول کو شرط قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح کچھ اہل علم کا موقف ہے کہ ہبہ کرنے والے کی طرف سے یہ کہنا ہی کافی ہے کہ میں نے فلاں چیز اسے ہبہ کی، اس سے ہبہ مکمل ہو جاتا ہے، اس پر قبضہ کرنا ضروری نہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کی تردید کرتے ہوئے ہی یہ عنوان قائم کیا ہے۔ امام بخاری کا مقصد یہ ہے کہ ہبہ میں قبضہ ضروری ہے، صرف عقد سے ہبہ مکمل نہیں ہوتا۔ اسی طرح دوسرے شخص کو قبولیت کے الفاظ ادا کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، بہرحال ہبہ میں قبضہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔ صورت مسؤلہ میں سائل نے زبانی طور پر ایک قطعہ ارضی اپنی بیوی کوہبہ کیا اور اس کے نام نہیں لگوایا اور وہ اس پر قبضہ کرنے سے پہلے فوت ہو گئی، لہٰذا وہ قطعہ ارضی کی مالکہ نہیں۔ بلکہ وہ بدستور سائل کی ملکیت ہے۔ وہ اس وقت تقسیم نہیں ہو گا کیوں کہ اس پر مرحومہ کی ملکیت ثابت نہیں ہوتی۔ البتہ اس کی دیگر ذاتی اشیاء تقسیم ہوں گی، ان میں سے چوتھا حصہ خاوند کا ہے، کیوں کہ مرحومہ کی اولاد موجود ہے اور باقی تین حصے اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ ایک لڑکے کو لڑکی سے دوگنا حصہ ملے۔ سہولت کے پیش نظر مرحومہ کی ذاتی جائیداد کے چالیس حصے کر لیے جائیں، ان میں سے دس حصے شوہر کو، چھ چھ حصے مرحومہ کے بیٹوں کو اور تین تین حصے مرحومہ کی بیٹیوں کو ملیں گے۔ میت؍40 خاوند بیٹا بیٹا بیٹا بیٹی بیٹی بیٹی بیٹی 10 6 6 6 3 3 3 3 چونکہ مرحومہ کی اولاد موجود ہے، اس لیے بہن بھائیوں کو اس کی جائیداد سے کچھ بھی نہیں ملے گا، اور وہ محروم شمار ہوں گے۔ واللہ اعلم
Flag Counter