Maktaba Wahhabi

151 - 559
’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر انہوں نے اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔‘‘[1] علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبروں کو مسجدیں بنانے میں تین امور شامل ہیں۔ ۱۔ قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا۔ ۲۔ قبروں پر سجدے کرنا۔ ۳۔ قبروں پر مساجد تعمیر کرنا۔ [2] اس بناء پر ہمارے رحجان کے مطابق قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، اگر کوئی قبرستان میں مسجد بناتا ہے تو اس کا حکم قبر جیسا ہی ہے۔ چنانچہ حضرت قتادہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ قبرستان کے پاس سے گزرے تو لوگ اس میں مسجد تعمیر کر رہے تھے، انہیں دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قبروں کے درمیان مسجد بنانا ناپسند کیا جاتا تھا۔‘‘[3] ہاں اگر قبرستان پرانا ہو چکا ہو اور وہاں دفن کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہو اور وہ قبرستان بھی غیر مسلم لوگوں کا ہو تو وہاں قبروں کو سطح زمین کے برابر کرے وہاں مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجر ت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مدینہ طیبہ کے ایک پرانے قبرستان کو ہموار کر کے مسجد نبوی تعمیر کی تھی۔[4] امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’کیا مشرکین کی قبروں کو ہموار کر کے وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے۔‘‘ [5] لیکن مسلمانوں کے قبرستان میں یہ کام نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ان کی قبریں اعزاز و تکریم کی حق دار ہیں، انہیں اکھاڑنا کسی صورت میں جائز نہیں ہے، بعض لوگ مسجد نبوی میں موجود قبور ثلاثہ سے دلیل لیتے ہیں کہ قبرستان میں مسجد بنائی جا سکتی ہے لیکن یہ دلیل اس لیے بے کار ہے کہ قبور ثلاثہ سے پہلے وہاں مسجد موجود تھی اور یہ تینوں قبریں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں ہیں جو مسجد نبوی سے باہر تھا، ان تینوں قبروں کو مسجد میں شامل کرنے کا حکم نہ اللہ تعالیٰ نے دیا نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق کوئی اشارہ دیا۔ اسے خیر القرون کے بعد مسجد نبوی میں شامل کیا گیا اس لیے یہ کام کسی شرعی مسئلہ کی
Flag Counter