Maktaba Wahhabi

109 - 559
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے اسے شیطان کا لیٹنا قرار دیا ہے جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے۔ ‘‘[1] امام بخاری نے اس کی مشروعیت کو بیان کرنے کے لیے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’باب الضجعہ علی الشق الایمن بعد رکعتی الفجر‘‘ ’’صبح کی دو سنت کے بعد دائیں کروٹ لیٹنا۔‘‘[2] اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے آپ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث پیش کی ہے، آپ فرماتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو سنت پڑھ لیتے تو اپنی دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔‘‘[3] اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا امر بھی وارد ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی فجر سے پہلے سنتیں پڑھے تو چاہیے کہ وہ اپنی دائیں جانب لیٹ جائے۔‘‘[4] اس حدیث سے بعض اہل علم نے اس کے واجب ہونے کا مسئلہ کشید کیا ہے جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ مذکورہ امر و جوب کے لیے نہیں بلکہ استحباب کے لیے ہے۔ کیوں کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل نہیں کیا، جیسا کہ خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو سنت پڑھ لیتے تو اگر میں بیدار ہوتی تو میرے ساتھ گفتگو کرتے، بصورت دیگر آپ لیٹ جاتے۔‘‘[5] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا ضروری نہیں، بہرحال صبح کی دو سنت پڑھنے کے بعد لیٹنا مشروع ہے اور اسے خلاف سنت یا بدعت قرار دینا صحیح نہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر دو سنتوں کے بعد لیٹنے کے دوران دعائے نور پڑھنے کا رواج ہے، اس کا کسی حدیث میں ذکر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس دعا کا پڑھنا ثابت ہے لیکن محل کی تعین کے متعلق حسب ذیل روایات ہیں: ٭ تہجد سے فراغت کے بعد۔[6] ٭ نماز یا سجدہ میں۔[7] ٭ فجر کے لیے مسجد کی طرف جاتے ہوئے۔[8]
Flag Counter