ہوٹل سسل کی رونق عریاں عشاق شہر کاہے” زمیندار“سےسوال ہوٹل سسی کی رونق عریاں کہاں گءی اس کے جلوہ میں جاں گءی ایماں کے ساتھ ساتھ کیاکیا نہ تھاجولے کے وہ جان جہاں گئی خوف خدا ئے پاک دلوں سے نکل گیا ، آنکھوں سے شرم سرورکون ومکاں گئی بن کے خردش حلقہ رندان لم یزل لے کر گئی وہ حشر کاساماں ، جہاں گئی روما سے ڈھل کےبرق کے سانچے میں آئی تھی اب کسی حریم ناز میں وہ جان جاں گئی یہ چسیتاں تو”زمیندا“نے کہا اتناہی جانتا ہوں کہ وہ قادیان گئی [1] نیز لکھا : اطالوی حسینہ مس روفو تمہیں مشی فی النوم کی بھی خبر ہے؟ زمانے کے اے بے خبرفیل سوفو! ملےگاتمہیں یہ سبق قادیاں سے جہاں چل کے سوتے ہیں آئی ہے روفو! دبستاں میں جانا نہیں چاہتے ہو توپہنچو شبستاں میں اے بے وقوفو! بہا رآرہی ہے خزاں جارہی ہے ہنسوکھل کھلاکر ومشقی شگوفو! کرشن اورخورسند کیااس کوسمجھیں تمہیں داد دواس کی عبدالروفو! جب اوقات موجودہے قادیاں کی کہاں مررہی تفواوروفو! ۱۳۔مارچ ۱۹۳۴ء (بحوالہ ،،ترجمان الحدیث ،،شمارہ 5جلد ۳ بابت نومبر ۱۹۷۰ء) |