پاکستان میں مرزائی ریاست حال ہی میں خبر آئی ہے کہ محکمہ اوقاف ان اداروں کوبھی اپنی تحویل میں لینے کے بارہ میں سوچ رہاہے جو ہنوز اس کے ” سایہ عاطفت“میں نہیں آئے ۔ ہمیں اس وقت اس بات سے بحث نہیں کہ محکمہ اوقاف کا یہ اقدام درست ہے یا نہیں، بلکہ ہم اس وقت محکمہ اوقاف کا یہ اقدام درست ہے یا نہیں ،بلکہ ہم اس وقت محکمہ اوقاف کے کارپروازوں سے خصوصاً اور ارباب حکومت پاکستان سے عموماً اس سوال کاجواب چاہتے ہیں کیاوجہ ہے کہ حکومت اور اس کے قائم کردہ محکمہ اوقاف نے بلارعایت ہر گروہ اور ہر فرقے کے دینی اداروں اور مدارس ،مکاتب مساجد اور ان کی املاک کوتواپنی تحویل میں لے لیا اور ان کی آمدنی پر اپنے پہرے بٹھادیے لیکن ایک مخصوص مذہب کے تمام ادارے اور ا س کی تمام املاک اس حکم سے مستثنیٰ رہیں ،اب جبکہ ان اداروں پر قدغن لگانے کے متعلق سچا جارہا ہے جن کی اپنی کوئی پراپرٹی نہیں اور جن کا تمام بار چند اہل خیر حضرات کے کندھوں پر ہے تب اس مذہب کے ان پر بے پناہ سرمایہ دار اداروں کے بارے میں کیوں لب کشائی نہیں کی جاتی ؟ ہماری مراد ہندوستانی نبی مرزاغلام احمد آنجہانی کی امت اور ان کی جماعت سے ہے جنہوں نے حکومت پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ایک الگ حکومت کی تشکیل کر رکھی ہے ۔ پاکستان میں بسنے والے اس بات پر اضطراب کااظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان پر تو ملک کے تمام قوانین وضوابط لاگوں ہوں گے لیکن چند ایسے لوگوں کوا ن قوانین وضوابط سے مستثنیٰ قراردیاجائے جنہوں نے اپنی عقیدتوں کا مرکز محمد عربی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بجائے غلام ہندی کوبنارکھا ہے اور جن کے نہاں خانہ دل میں پاکستان میں بستے ہوئے بھی، ہندوستان کی ایک بستی رچی اور بسی ہوئی ہے ،ا گر اوقاف بورڈ،اہل حدیث، بریلوی ،دیوبندی ،شیعہ اور دیگر |