” مرزا بشیر الدین محمود کی آمد اور سل ہوٹل کی منتظمہ کی گمشدگی تلاش کے باجوو اس کا کوئی پتہ نہیں مل سکا “ یکم مارچ سل ہوٹل کی طرف سے مشتہر ہواتھاکہ آج جمعرات یکم مارچ پانچ سے ساڑھے نوبجے رات تک ناچ اور اکاؤنٹ ڈرائیور ہوگا۔ بڑے بڑے انعامات بدستور سابق تقسیم کیے جائیں گے ۔ تماشائی چار بجے شام سے جمع ہونے شروع ہوگئے اور پانچ بجے اچھاخاصا مجمع ہوگیا۔ پ ہر ایک شخص کھیل شروع ہونے کا منتظرتھا ، مگرخلاف توقع رسٹ ڈرائیور کا تمام سامان منتظمہ کے کمرے میں ہے اور منتظمہ کومرزابشیر الدین محمود موٹر پر بٹھا کر لے گئے ہیں ۔ [1] اس واقعہ کو”زمیندار “ کے مدیر شہیر مولانا ظفر علی خان نے ” زمیندار“ میں یوں رقم کیا: الطالوی حسینہ اے کشور اطالیہ کے باغ کی بہار لاہور کادامن ہے تیرے فیض سے چمن پیغمبر جمال تیری چلبلی ادا پروردگار عشق تیرا دلربا چلن الجھے ہوئے ہیں ہے دل تری زلف سیاہ میں ہیں جس کے ایک تار سے وابستہ سوفتن پروردہ فسوں ہے تیری آنکھ کا خمار آوردہ جنوں ہے تیری بوئے پیرہن پیمانہ نشاط تیری ساق صندلیں بیعانہ سرورتیرا مرمری بدن ! رونق ہے ہوٹلوں کی تراحسن بےحجاب جس پر فدا ہے شیخ تولٹو ہے برہمن جب قادیان پہ تیری نشیلی نظر پڑی سب نشہ نبوت ظلی ہوا ہرن میں بھی ہوں تیری چشم پر افسوں کا معترف جادو وہی ہے جوہوقایاں شکن |