Maktaba Wahhabi

40 - 153
کہ خالق و رازق اور مدبر توصرف اللہ تعالیٰ ہی ہے بلکہ ’’الٰہ‘‘ ان کے نزدیک وہ ذات تھی جسے وہ اللہ کا قریبی یا اللہ کے ہاں سفارشی یا اپنے اور اللہ کے درمیان واسطہ سمجھ کر اس کی طرف رجوع کرتے، خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی، ولی ہو یا درخت، قبر ہو یا کوئی جن۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہ توحید(لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ)کی دعوت دی۔ اس کلمہ کے اقرار کا مطلب صرف الفاظ کا اقرارنہیں تھا بلکہ اس کا معنی و مفہوم مراد تھا۔ جاہل کافر بھی جانتے تھے کہ اس کلمہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ صرف اللہ کی ذات سے تعلق رکھا جائے، اس کے علاوہ پوجا کی جانے والی تمام چیزوں کا انکار اور ان سے براء ت کا اعلان کر دیا جائے۔ یہی وجہ تھی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان سے(لَااِلہَ اِلَّا اللّٰہ)کہنے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا: ﴿اَجَعَلَ الْاٰلِہَۃَ اِلٰہًا وَّاحِدًا اِنَّ ہٰذَا لَشَیْئٌ عُجَابٌ﴾(ص:5) ’’کیا اس نے سب معبودوں کو ایک معبود کر دیا، یہ تو بڑی انوکھی بات ہے۔ ‘‘ یہ جاننے کے بعد کہ اَن پڑھ کافر بھی اس کلمہ کا مطلب جانتے تھے، ان لوگوں پر بڑا تعجب ہوتا ہے جو اسلام کے دعوے دار ہیں اور کلمہ طیبہ کا اتنا بھی مطلب نہیں جانتے جتنا جاہل کفار جانتے تھے،بلکہ یہ سمجھتے ہیں کہ معنی و مفہوم کا دل میں عقیدہ رکھے بغیر صرف الفاظ کا ادا کر لینا ہی کافی ہے۔ ان میں جو زیادہ سمجھ دار اور عقل مند سمجھے جاتے ہیں وہ اس کلمہ کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ خالق و رازق اور کائنات کا انتظام کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ظاہر بات ہے کہ اس شخص سے بھلائی کی کیا توقع ہو سکتی ہے، جس سے زیادہ جاہل کفار’’ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘ کا مطلب جانتے ہوں۔
Flag Counter