Maktaba Wahhabi

144 - 153
اور کہا اے اللہ ہم پر بارش برسا آپ نے تین مرتبہ یہ الفاظ فرمائے، اللہ تعالیٰ نے ایک بدلی آسمان پر دکھائی۔ پھر پوراہفتہ لوگوں نے سورج نہیں دیکھا اور موسلا دھار بارش جاری رہی۔ آئندہ جمعہ وہی آدمی یا کوئی اور آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے کہا اے اللہ کے رسول مال غرق ہوگئے اور دیواریں گرنا شروع ہوگئیں آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ اس بارش کو روک دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی اور کہا اے اللہ ہم سے اس کو لے جا اور ہمارے اوپر نہ برسا،اے اللہ اسے پہاڑیوں کی چوٹیوں پر،میدانوں میں،وادیوں میں اور جنگلوں میں برسا۔[1] بادل پھٹ گئے اور صحابہ کرام جب جمعہ پڑھ کر نکلے تو اس وقت سورج نظر آرہا تھا۔ غورکیجیے! اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ آپ دعا فرمائیے!نہ کہ آپ سے دعا کی گئی اور نہ ہی یہ استغاثہ کے مفہوم میں آتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ اعتراض بھی دراصل دھوکہ ہے جو ان کے کسی کام نہیں آسکتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے سامنے بیکار دلیل ہوگی۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ اگر آپ کسی نیک آدمی کے پاس آتے ہیں جس کی نیکی اور پاکیزگی معروف و مشہور ہے اور آپ اس سے مطالبہ کریں کہ وہ آپ کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے، یہ بات درست ہے ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن انسان کی یہ عادت نہیں ہونی چاہیے کہ جب بھی کوئی دیندار، نیک سیرت شخص کو دیکھے تو اس سے مطالبہ کرے کہ تم اللہ تعالیٰ سے میرے لیے دعا کرو۔سلف صالحین کا یہ طریقہ نہ تھا،نیز اس میں کسی دوسرے کی دعا پر اعتماد ہونے لگتا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ جب انسان اپنے رب سے خود اپنے لیے دعا کرتا ہے تو یہ اس کے لیے اچھاہے، جس طرح وہ باقی عبادت کے کام سر انجام دیتا ہے اسی طرح دعا بھی عبادت
Flag Counter