Maktaba Wahhabi

142 - 153
اس کے بس میں ہو، جیسا کہ موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاسْتَغٰثَہُ الَّذِی مِنْ شِیْعَتِہِ عَلَی الَّذِیْ مِنْ عَدُوِّہِ﴾(القصص: 15) ’’پس اس شخص نے جو موسیٰ کا ہم قوم تھا اس شخص کے مقابلہ میں جو موسیٰ کے دشمن گروہ سے تھا، موسیٰ سے مدد چاہی۔ ‘‘ یا جس طرح انسان جنگ وغیرہ میں اپنے ساتھیوں سے ان امور میں استغاثہ کرتا اور مدد چاہتا ہے جن پر انسان قادر ہوتا ہے۔ ہم تو اس استغاثہ کا انکار کرتے ہیں جو بزرگوں کی قبروں پر جا کر عبادت کی شکل میں کیا جاتا ہے یا غائبانہ طور پر ان سے ان چیزوں کا سوال کیا جاتا ہے جو اللہ کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں۔ اس تفصیل کے بعد مذکورہ حدیث کی طرف آئیں جسے مشرکین بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اس حدیث میں انبیاء سے استغاثہ کی تفصیل یہ ہے کہ قیامت کے دن لوگ انبیاء علیہما السلام کے پاس آکر درخواست کریں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ جلد حساب و کتاب شروع ہو، تاکہ جنتی حضرات میدان حشر کی سختیوں سے نجات پائیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس قسم کا استغاثہ دنیا میں بھی جائز ہے اور آخرت میں بھی، کہ آپ کسی نیک اور زندہ شخص کے پاس جائیں جو آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سنے اور اس سے یہ درخواست کریں کہ میرے لیے اللہ سے دعا کر دیجئے۔ جیسا کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے پاس آتے اور دعا کی درخواست کرتے تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد حاشاوکلا کبھی ایسا نہیں ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی قبر کے پاس آکر آپ سے دعا کی درخواست کی ہو بلکہ سلف صالحین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے سے منع فرماتے تھے، چہ جائیکہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی جائے۔
Flag Counter