Maktaba Wahhabi

120 - 153
فقل: ہذا ہو المطلوب اذا کان من رفع رجلًا الٰی رتبۃ النبی صلی اللّٰهُ علیہ وسلم کفر وحل مالہ ودمہ ولم تنفعہ الشہادتان ولا الصلاۃ، فکیف بمن رفع شمسان أو یوسف أو صحابیًّا او نبیًّا الٰی مرتبۃ جبار السماوات والأرض؟ سبحان اللّٰہ، ما أعظم شأنہ﴿کَذٰلِکَ یَطْبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ﴾[الروم:59] مذکورہ شبہ کے جواب میں معترض سے یہ بھی کہا جائے گا کہ جب تم اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ جو شخص تمام امور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرے اور صرف نماز کے وجوب کا انکار کر دے تو وہ بالاجماع کافر ہے اور اس کی جان و مال مباح ہے یا اسی طرح جو شخص تمام فرائض کا اقرار کرے اور صرف یوم آخرت کا انکار کر دے یا تمام چیزوں کا اقرار کرے، مگر رمضان کے روزے کی فرضیت کا انکار کر دے، وہ بالاجماع کافر ہے۔ کسی بھی مذہب کا اس میں اختلاف نہیں۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ’’توحید‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا سب سے اہم فریضہ ہے اور اس کی حیثیت نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج سے بھی بڑھ کر ہے۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر مکمل عمل کے باوجود کوئی شخص اگر اس میںسے ایک بات کا بھی انکار کر دے تو وہ کافر ہو جائے لیکن اگرکوئی توحید کا انکار کر دے جو تمام انبیاء کا دین ہے، اسے کافر نہ کہا جائے۔ سبحان اللہ یہ کتنی عجیب جہالت ہے۔ معترض سے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ صحابہ کرام نے بنو حنیفہ سے قتال کیا۔ حالانکہ بنو حنیفہ کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے اور ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ کا اقرار کرتے تھے۔ اذان دیتے تھے اور نماز بھی پڑھتے تھے۔ اس پر اگر وہ کہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بنو حنیفہ سے اس لیے قتال کیا کہ وہ مسیلمہ کو نبی کہتے تھے، اس پر آپ جواب دیں کہ ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ بنو حنیفہ نے جب ایک شخص کو نبوت کے درجے تک پہنچا دیا تو ان کا شہادتین کا اقرار کرنا، نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا کچھ کام نہ
Flag Counter