Maktaba Wahhabi

113 - 153
1۔ آج کے لوگ مشکل اور آسانی ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے شریکوں کو ہی پکارتے ہیں، لیکن مشرکین مکہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعوت پیش کی وہ عام حالات میں اپنے معبودوں کو پکارتے تھے لیکن جب ان کو مشکل حالات درپیش ہوتے تو ان تمام معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے اوراس سے مددطلب کرتے۔ اس کا تذکرہ قرآن مجید میں ان الفاظ میں منقول ہے: ﴿وَ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فِی الْبَحْرِ ضَلَّ مَنْ تَدْعُوْنَ اِلاَّ ٓاِیَّاہُ فَلَمَّا نَجّٰکُمْ اِلَی الْبَرِّ اِذَا ہُمْ یُشْرِکُوْنَ﴾(بنی اسرائیل: 67) ’’ جب تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جنہیں تم پکارتے ہو وہ گم ہوجاتے ہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے،جب وہ تمہیں نجات دے کر خشکی پر لے آئے پھر تم منہ موڑ لیتے ہو،انسان ہے ہی ناشکرا۔ ‘‘ ان لوگوں کی یہ عادت تھی کہ جب کشتی میں سوارہو کر سمندر کی طغیانی اور اس کے بھنوروں میں پھنس جاتے تو صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے اور دعا کرتے، اللہ کے سوا کسی دوسرے سے اس مشکل سے نجات اور خشکی تک پہنچنے کا سوال بھی نہیں کرتے تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ ان کی پکار کے مطابق ان کو نجات دے دیتا تو پھر دوبارہ اپنے پرانے طریقے کے مطابق ان معبودوں کے پاس جاتے اور وہاں نذرو نیاز چڑھاتے۔ ان تمام آیاتِ کریمہ سے یہی بات واضح ہوتی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مشرکین عام حالات میں اللہ تعالیٰ اور اپنے بنائے ہوئے شریکوں کو پکارتے تھے لیکن جب ان پر کوئی سختی آتی تو صرف اللہ تعالیٰ کو پکارتے،اپنے معبودوں کو نہ پکارتے تھے۔ آج کے زمانے میں بڑی عجیب حالت ہے کہ کوئی شخص یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ حق و باطل اور سچ و جھوٹ میں کیا فرق ہے،چنانچہ یہ بات سمجھنا اور اس بات کو سمجھ کر اپنے حالات پر غور کرنا اور اس کی اصلاح کر نا دور دور تک نظر نہیں آتا۔ 2 دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مشرکین اللہ کے سوا جن لوگوں کو پکارتے
Flag Counter