Maktaba Wahhabi

56 - 108
ایک دوسری حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعری راوی ہیں: «مَثَلُ الْقَلْبِ کَرِیْشَةٍ بِاَرْضٍ قَلاَةٍ یُقَلِّبُهَا الرِّیاَحُ ظَهْرًا لِبَطَنٍ»[1] (دل ایک پر کی طرح ہے۔ میدان میں ہوائیں اسے الٹا سیدھا بدلتی رہتی ہیں۔) اس حدیث کو ابن ماجہ‘ طبرانی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جیسے پرندے کا پر جنگل میں ہواؤں کے زور سے الٹا سیدھا ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح دنیا کے میدان میں جب خواہشاتِ نفسانی کے جھکڑ چلتے ہیں تو دلوں کی یہی کیفیت ہو جاتی ہے۔ کبھی نیکی سے برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور کبھی برائی سے نیکی کی طرف جھکتے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ ایک اور جگہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: «التقوٰی ههنا و اشار اِلٰی صَدْرِه»[2] (آپ ؐنے سینے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے۔ ) اس طرح ایک دوسری حدیث میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: «اِنَّ اللّٰهَ لاَیَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَلَا اِلٰی اَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوبِکُمْ وَاعْمَالِکُمْ»[3] (اللہ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔) دورِ جاہلیت کے مشہور عرب شاعر زہیر بن ابی سُلمٰی کے نزدیک بھی انسان دراصل دل ہی کا نام ہے۔ اس کا شعر اس مفہوم کی خوب وضاحت کرتا ہے۔ لسان الفتٰی نصف و نصف فؤاده فلم یبق الاصورة اللحم والدّم ’’انسان کا نصف اس کی زبان ہے اور نصف اس کا دل ہے۔ اس کے سوا جو باقی ہے وہ تو محض گوشت اور خون ہے۔‘‘ دل کی خرابیاں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق دل ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور دل ہی تمام نیکیوں کا منبع ہے۔ دیکھنا چاہیے کہ دل کن وجوہات کی بنا پر خرابیاں پیدا کرتا ہے۔ علامہ ابن
Flag Counter