Maktaba Wahhabi

76 - 108
﴿ كَذَّبَتْ عَادُۨ الْمُرْسَلِيْنَ ١٢٣؀ښ اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ هُوْدٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ١٢٤؀ۚ اِنِّىْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِيْنٌ ١٢٥؀ۙ فَاتَّـقُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوْنِ ١٢٦؀ۚ وَمَآ اَسْـَٔــلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰي رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ ١٢٧؀ۭ﴾[1] (قوم عاد نے رسولوں کو جھٹلایا۔ ان کے بھائی ہود علیہ السلام نے انہیں کہا کہ کیا تم اللہ سے ڈرتے نہیں۔ میں تمہارے لیے امانت دار رسول ہوں۔ اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ میں تم سے اس (تبلیغ) کا کوئی صلہ نہیں مانگتا۔ میرا صلہ تو اللہ رب العالمین کے ذمہ ہے۔) اس قوم نے سیدنا ہود علیہ السلام کا حکم تو نہ مانا البتہ اپنی حفاظت کے سامان کرنے میں مشغول ہو گئی۔ ان لوگوں نے زمین دوز شہر بنائے۔ بالآخر اس قوم نے چیلنج کیا کہ یہاں اب اپنے خدا کا عذاب لے آؤ۔ اللہ تعالیٰ کا عذاب پھر ان پر مسلط ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے اس طاقت ور‘ جسیم اور قد و قامت والی مخلوق کو اپنی سب سے کمزور اور ضعیف مخلوق ہوا سے مروایا اور ان کے غرور کو خاک میں ملایا۔ وہ ہوا ان پر سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل چلتی رہی۔ جس نے ان کا نام و نشان مٹا دیا۔ وہ ہوا ان کو پہاڑوں ‘ غاروں اور زمین دوز سرنگوں سے کھینچ لائی۔ فضائے آسمانی میں تنکوں کی طرح اڑاتی اور اوندھے کر کے گر ادیتی۔ جس سے ان کی گردنیں ٹوٹ جاتیں۔ سر اور دھڑ الگ الگ ہو جاتے۔ اس طرح اس مغرور قوم کو اللہ تعالیٰ نے تباہ و برباد کردیا۔ سیدنا صالح علیہ السلام: ان کا ذکر قرآن مجید میں آٹھ جگہ آیا ہے۔ ثمود آپ کے جد امجد کا نام تھا۔ اسی ثمود کی اولاد قوم ثمود کہلائی۔ قوم ثمود کی بستیاں حجر کے علاقہ میں تھیں۔ حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ تک انہی کی بستیاں تھیں۔ آج اس علاقہ کو ’’فج الناقہ‘ ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کا زمانہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بہت پہلے ہے۔ ان کا مذہب آہستہ آہستہ بت پرستی بن گیا تھا۔ کفر اور شرک کے علاوہ ہر قسم کی بد اخلاقیاں ان میں سرایت کر چکی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں میں سے ایک آدمی صالح علیہ السلام کو نبی بنایا۔ سیدنا صالح علیہ السلام نے ہر ممکن طریقہ سے قوم
Flag Counter