Maktaba Wahhabi

43 - 108
بھڑکایا۔ ایک دفعہ یہود نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھت سے پتھر گرا کر ہلاک کرنا چاہا۔ جنگ خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت میں بکری کا گوشت کھلانے کی کوشش کی۔ جس میں زہر ملا ہوا تھا۔ غرض ان کی بدعہدیاں اور عہدشکنیاں اور معاندانہ سرگرمیاں اتنی زیادہ ہیں جن کا بیان یہاں ممکن نہیں۔ «وعن ابن مسعود و ابن عمر وانس رضی الله عنه م قالوا قال النبی لکل غادر لواءً یوم القیامة ایقال هذه غدرة فلان»[1] سیدنا ابن مسعود، ابن عمر اور انسؓ سے روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ایک وعدہ خلاف کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا اور کہا جائے گا کہ یہ فلاں فلاں کی عہد شکنی ہے۔ اسی طرح عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اربعٌ مَنْ کُنَّ فِیْهِ کَانَ مُنَافِقًا خالِصًا وَمَنْ کانت فیه خصلة منهنَّ: کان فیه خَصْلةٌ من النّفَاقِ حَتّٰی یَدَعَهَا: اِذاِ اوْتُمِنَ خَانَ واِذَا حدَّثَ کَذَبَ وَاِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَاِذَا خَاصَمَ فَجَرَ» (چار خصلتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہوگا۔ جس میں ان میں کوئی ایک خصلت ہوگی تو اس میں نفاق کی ایک خصلت ہوگی یہاں تک کہ اسے چھوڑ دے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب کوئی عہد کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب کسی سے جھگڑے تو بدزبانی کرے۔) جس طرح عہد شکنی تقویٰ کے منافی ہے اسی طرح جھوٹ بولنے کو بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکبر الکبائر میں شمار کیا ہے۔ یہ چند ایک چیزوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ورنہ ہر وہ چیز جو سنت کے خلاف ہے۔ یقینا کوئی بھی متقی انسان اس کو اپنانے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے: لادین لمن لا عهدله اس آدمی کا کوئی دین نہیں جو وعدے کی پاسداری نہیں کرتا۔[2] امانت داری: امانت کی حفاظت اور اس میں کسی طرح کی کمی بیشی نہ کرنا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل امین اور صادق کے نام سے ہی جانے پہچانے جاتے تھے۔ ہجرت کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ذمہ یہ ڈیوٹی لگائی کہ لوگوں کی میرے پاس امانتیں ہیں یہ واپس کر کے تم بھی مدینہ آجانا۔ امانت داری بھی متقی شخص کی علامت ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
Flag Counter