Maktaba Wahhabi

78 - 108
مویشیوں کو چرانے اور پانی پلانے کی باری مقرر کر دی۔ ایک دن چراگاہ میں تمہارے مویشی کنویں سے پانی پئیں گے اور ایک دن صرف یہ اونٹنی اکیلی پانی پیا کرے گی۔ اور یاد رکھو جس دن اس اونٹنی کو تکلیف پہنچی وہ دن تمہاری تباہی اور بربادی کا ہوگا۔ کچھ عرصہ تو قوم اس فیصلے پر کاربند رہی لیکن آہستہ آہستہ اس پابندی کو برداشت کرنا ان کے لیے مشکل ہوگیا۔ ان میں ایک بدکار عورت تھی۔ جس کے بہت سے مویشی تھے اور خاصی مال دار تھی۔ اس نے اپنے آشنا کو اونٹنی کا قصہ پاک کرنے پر آمادہ کرلیا۔ مویشیوں کے لیے پانی اور چارے کے آدھا رہ جانے کی وجہ سے سب لوگ اس سے تنگ آئے ہوئے تھے۔ لہٰذا سب نے ہاں میں ہاں ملائی۔ چنانچہ وہی بدبخت زانی اس کام کیلیے تیار ہوگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ وہ اپنی قوم میں سب سے زیادہ بدبخت تھا۔ وہ ایک زور آور‘ شریر اور مضبوط شخص تھا۔ جو اپنی قوم میں ابو زمعہ (زبیر رضی اللہ عنہ بن عوام کا چچا) کی طرح تھا۔ اور اس کا نام قدار تھا۔ [1] اس بدبخت نے تلوار مار کر اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں۔ سیدنا صالح علیہ السلام کو معلوم ہوا تو بہت افسوس کیا اور کہا اب تین دن کی مہلت ہے کھا پی لو۔ آخر تین دن بعد یہ نالائق قوم ایک دہشت ناک آواز سے ہلاک کر دی گئی۔ سیدنا صالح علیہ السلام نے اس بدبخت قوم کی لاشوں پر کھڑے ہو کر بڑے دردناک الفاظ میں اظہار افسوس کیا اور اپنے ساتھ ایمان لانے والے ایک سو بیس آدمیوں کو لے کر فلسطین کے علاقہ میں چلے گئے۔ اس مقام پر رملہ کے قریب آپ علیہ السلام نے وفات پائی۔ سیدنا لوط علیہ السلام: سیدنا لوط علیہ السلام ‘ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے۔ جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وطن کو خیر آباد کہا تو اس وقت یہی ایک فرد تھے جو آپ علیہ السلام پر ایمان لائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت سے سرفراز کیا۔ عراق سے ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کر کے فلسطین آئے جہاں سدوم اور عمورہ کی بستیاں تھیں وہ علاقہ ان کی تبلیغ کے لیے مقرر ہوا۔ آپ کی قوم
Flag Counter