Maktaba Wahhabi

92 - 108
قبائل کا پسندیدہ ذریعہ معاش تجارتی قافلوں کو لوٹ کر گزر اوقات کرنا تھا۔ ان قبائل میں جب کبھی جنگ چھڑ جاتی تو سالوں جاری رہتی۔ یہ لوگ خدائے واحد کو بھول کر بت پرست بن گئے تھے۔ ہر قبیلے کا بت جدا جدا تھا۔ جو اللہ کے ہاں سفارشی سمجھا جاتا تھا۔ اس عقیدہ سفارش نے ان کو عصیان و سرکشی کی زندگی پر دلیر بنا دیا تھا۔ ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فی سبیل اللہ کا فریضہ سر انجام دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مشن کا آغاز عقیدہ توحید اور یوم آخرت پر ایمان اور پرسش اعمال پر استوار کیا۔ مکی زندگی کے مسلسل ۱۳ سال انفرادی اور پر امن جہاد پر صرف کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت نے مکہ کے بت پرستوں کو اتنا زیادہ مشتعل کر دیا کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کی جان کے دشمن بن گئے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تیرہ سال کی جدوجہد سے ایک مٹھی بھر جماعت تیار کر لی۔ جو اسلام کے شیدائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار تھے۔ قریش مکہ نے ان لوگوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ ان کے مسلسل ظلم و ستم سہتے سہتے ۱۳ سال بعد ان ظلم رسیدہ لوگوں کو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جانے کی اجازت مل گئی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن ہجرت کی اجازت ملی جس دن قریش کے پورے قبائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان سے ختم کر دینے کی خفیہ سازش تیار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کئے بیٹھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر ایک چھوٹی سی آزاد خود مختار ریاست تشکیل کی۔ اس ریاست کے باشندوں کی تعداد مہاجرین سمیت پانچ سو نفوس سے زائد نہ تھی۔ اس قلیل تعداد کے ساتھ جہادِ فی سبیل اللہ یعنی قتال کا فریضہ سر انجام دینا یقینا بہت مشکل کام تھا۔ چنانچہ پہلی آیت جو اس سلسلہ میں نازل ہوئی۔ وہ یہ تھی: ﴿ اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ 39؀ۙ﴾[1] (جن مسلمانوں سے لڑائی کی جاتی رہی ہے ان کو بھی (لڑائی کی) اجازت ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم ہوا۔ اللہ تعالیٰ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔)
Flag Counter