Maktaba Wahhabi

112 - 108
نے دود ھ چھڑا دیا ہے۔ اب یہ کھانا کھاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بچہ لے کر ایک مسلمان کے حوالہ کیا۔ پھر اس کے متعلق حکم دیا کہ اس کے سینے تک گھڑا کھودا جائے اور لوگوں کو اسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آگے بڑھے اور اس کے سر پر مارا۔ خون کے چھینٹے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کے منہ پر پڑے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو برا بھلا کہا۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کی اس بات کو سن لیا تو خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔ خالد رضی اللہ عنہ ! یہ کیا بات ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو بخش دیاجائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ جنازہ کا حکم دیا۔ نمازِ جنازہ پڑھی گئی ا ور پھر دفن کی گئی۔[1] مسلم کی ایک دوسری حدیث جو کہ عمران بن حصین سے مروی ہے کہ جب اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جانے لگی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بول اٹھے۔ اے اللہ کے نبی ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں حالانکہ یہ زنا کی مرتکب ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا !اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کی توبہ اہل مدینہ کے ستر آدمیوں میں تقسیم کی جائے تو سب کے لیے کافی ہوگی۔ کیا تو نے اس سے بہتر آدمی دیکھا یا پایا ہے جس نے اللہ کے لیے اپنی جان کو اللہ کے سپرد کیا ہو۔ (مسلم) (4) ماعز رضی اللہ عنہ بن مالک کا واقعہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص (ماعز رضی اللہ عنہ بن مالک اسلمی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور کہنے لگا۔ اے اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ وہ دوسری طرف سے گھوم کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگیا اور عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا رخ انور پھیر لیا۔ اس شخص نے چار مرتبہ بار بار سامنے آکر اقرار کیا۔ اس طرح جب اس نے اپنے آپ پر چار مرتبہ گواہیاں دے دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پاس بلایا اور پوچھا کیا
Flag Counter