Maktaba Wahhabi

93 - 108
پھراللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: ﴿ وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ﴾[1] (کفارسے اس وقت تک لڑو کہ فتنہ و فساد کا نام نہ رہے اور دین سارا اللہ تعالیٰ کا ہو جائے۔) چنانچہ ۲ ہجری پہلا بڑا غزوہ بدر جس میں ابو جہل ایک ہزار لشکر جرار لے کر آیا۔ جبکہ مومنین صرف ۳۱۳ کے قریب تھے۔ اس میں کفارکو شکست ِفاش ہوئی۔ ان کے بڑے بڑے ۷۰سردار مقتول ہوئے اور ۷۰ ہی قیدی بنے۔ ان کا سپہ سالار ابو جہل بھی دو نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچا۔ اس کے بعد شوال ۳ ہجری میں غزوہ احد جو کہ قتال اور خون ریزی کے اعتبار سے سب سے بڑا معرکہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ سے ایک ہزار کا لشکر لے کر نکلے۔ مگر رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہوگیا۔ بہانہ یہ تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے اندر رہ کر جنگ کرنے کی میری تجویز مسترد کردی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ منافق جہاد سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے تھے۔ بعض صحابہ کرام جو غزوہ بدر میں شرکت سے محروم رہ گئے تھے۔ انہوں نے مشاورت کے موقعہ پر عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول! ہم تو اس دن کی تمنا کیا کرتے تھے۔ اب اللہ نے یہ موقع فراہم کیا ہے اور میدان میں نکلنے کا وقت آیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے مد مقابل تشریف لے چلیں کہیں دشمن یہ نہ سمجھے کہ مسلمان ڈر گئے ہیں۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو اپنی ہی غلطی کی وجہ سے عارضی طور پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانت ٹوٹ گئے۔ چہرہ زخمی ہوگیا۔ نچلے ہونٹ سے خون بہنے لگا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتے بھی میدانِ جنگ میں آئے۔ حتی کہ کفار مکہ کو اپنی جان بچانا مشکل ہوگئی۔ اس کے بعد ماہ شوال ۴ ہجری میں تمام عرب کے کفار و مشرکین اتحاد کر کے مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے دس ہزار کی تعداد میں آئے جبکہ مقابلہ میں مومنین کی تعداد صرف تین ہزار تھی۔ سیدنا سلمان فارسی کے مشورہ پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر مدینہ کے ارد
Flag Counter