Maktaba Wahhabi

61 - 108
سیدنا عوف بن مالک اشجعی کہتے ہیں ہم سات آٹھ آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ پانچ نمازیں ادا کرو۔ اللہ کی فرماں برداری کرو اور ایک بات چپکے سے کہی کہ لوگوں سے کچھ نہ مانگنا ’’پھر میں نے ان میں سے بعض افراد کو دیکھا کہ اگر اونٹ سے ان کا کوڑا گر پڑتا تو کسی سے سوال نہ کرتے کہ وہ انہیں پکڑا دے۔‘‘ (کتاب الزکوٰۃ) مسلمانوں کا کسب و عمل پر اعتماد اس یقین کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ صرف اللہ کا محتاج ہے اور کسی کانہیں اس کا اظہار بھی اس کے آگے کرتا ہے۔ اگر وہ کام خود کرتا ہے تو اس کا بھروسا اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتا ہے۔ اگر درمیان میں کوئی رکاوٹ آجائے تو اس کے سوا کسی سے مدد نہیں مانگتا۔ اس لیے کہ اس کا دل غیر اللہ کے تعلق سے بری ہو چکا ہے۔ غیر اللہ سے ایسا تعلق اسے کبھی بھی محبوب نہیں ہوتا۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِيْنَ ١٥٩؁﴾[1] (یقینا اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔) نبی اکرم نے ستر ہزار لوگوں کے بارے بشارت دی جو بغیر حساب و عذاب جنت میں داخل ہوں گے۔ «هُم الَّذِیْنَ لَایَسْتَرْقُوْنَ وَلَا یَکْتَوُوْنَ وَلَا یتطَیّرُوْنَ وَعَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ»[2] (یہ وہ لوگ ہیں جو دم نہیں کرواتے داغ نہیں لگواتے شگون کے لیے پرندے نہیں اڑتے اور صرف اپنے رب پر ہی بھروسا کرتے ہیں۔) غیر اللہ سے محبت کرنے والا دنیا میں تو شاید کسی وقت کامیاب ہو جائے مگر آخرت میں اس کے لیے ہمیشہ ہمیشہ دوزخ کا عذاب ہے جبکہ اللہ پر توکل کرنے والوں کے لیے تو دنیا و آخرت میں کامیابی ہے۔ اور آخرت میں بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخلے کی بشارت ہے۔ اللهم اجعلنا منهم (آمین)
Flag Counter