Maktaba Wahhabi

100 - 108
﴿ اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ﴾[1] اگر تم تقویٰ اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں قوت تمیز عطا کرے گا۔ تمہاری برائیاں دور کردے گا اور تمہیں بخش دے گا۔ جو متقی انسان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس کے اندر ایسا نورِ بصیرت اور قوت تمیز پیدا کر دے گا جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کی رہنمائی کرے گا کہ فلاں کام اللہ کی رضا کے مطابق ہے اور فلاں اس کی مرضی کے خلاف ہے۔ متقی انسان کو اس آیت میں اللہ تعالیٰ تین قسم کے انعامات سے نوازنے کی خوشخبری دے رہے ہیں۔ ایک تو اس میں حق و باطل میں تمیز کی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ دوسرے اس کی برائیوں کو مٹا دیا جاتا ہے اور اس کے بیشتر گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ تقویٰ کے یہ ثمرات اللہ تعالیٰ کے لا محدود فضل و کرم کی وجہ سے ہیں۔ خیر و برکت کا ذریعہ: تقویٰ اختیار کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیرو برکات کا نزول ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ متقین پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ﴿ وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓي اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ ﴾[2] (اگر یہ بستیوں والے ایمان لاتے اور اللہ کی نافرمانی سے بچتے (تقویٰ اختیار کرتے) تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکات کھول دیتے۔) پچھلی آیات میں سیدنا نوح ‘ ہود ‘ صالح ‘ لوط ‘ شعیب علیہم السلام کی اقوام کا ذکر ہے۔ کس طرح انہوں نے اپنے انبیاء کی تکذیب کی۔ ان کی نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر مختلف قسم کے عذاب نازل کیے۔ چنانچہ ایسا ہی ایک عذاب قریش مکہ پربھی آیا تھا جب ان کی معاندانہ سرگرمیاں حد سے بڑھ گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بد دعا فرمائی۔ یا اللہ! ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانہ جیسا قحط نازل فرما۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول ہوئی۔ مکہ میں ایسا قحط پڑا جس میں یہ معززین قریش مردار‘ ہڈیاں اور چمڑا تک کھانے پر مجبور
Flag Counter