Maktaba Wahhabi

34 - 108
رات کی شادیوں میں سب سے مکروہ بات آتش بازی ہے جس میں اہل محلہ اور پڑوس کے کسی بوڑھے‘ بیمار یا بچے کا لحاظ کیے بغیر اپنی رقم کو پٹاخوں میں اڑاتے ہیں اور لوگوں کی بد دعائیں لیتے ہیں۔ کئی تو ساتھ ہوائی فائرنگ بھی شروع کر دیتے ہیں۔ جس سے بعض اوقات انسانی جانوں کی ہلاکت کی بھی خبریں ملتی ہیں۔ شادی کرنا جوکہ نہایت آسان تھا اس کو ہم نے خود ہی مشکل ترین کام بنا دیا ہے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے کپڑوں پر زرد رنگ کا نشان دیکھا تو فرمایا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ! یہ نشان کیسا ہے؟ بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے شادی کی ہے۔ پوچھا حق مہر کتنا دیا۔ کہنے لگے۔ کھجور کی گٹھلی برابر سونا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا کی اور فرمایا۔ اَوْلِمْ وَلَوْبِشَاةٍ (بخاری) ولیمہ کرو چاہے ایک بکری ہی ذبح کرو۔ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ جانثار صحابی شادی کرتا ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بلاتا تو پھر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر غصے یا رنج کا اظہار نہیں کرتے۔ بلکہ برکت کی دعا دیتے ہیں۔ گویا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت کر دیا کہ شادی کرنا نہایت آسان ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ رسم و رواج کے نام پر اپنی زندگی کو اجیرن بنایا ہوا ہے اور پھر بھی ہم عاشق رسول اور پکے مسلمان ہیں۔ داڑھی کا مسئلہ: اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور ان کی رفاقت کے لیے سیدہ حوا کو پیداکیا۔ دونوں کی صورت و ساخت وہ بنائی جو اسے پسندیدہ تھی۔ دونوں میں ظاہری تمیز کے لیے مردوں کو داڑھی والا بنایا۔ جس سے مرد کا حسن اور رعب دوبالا ہوتا ہے۔ گویا داڑھی مرد کے چہرے میں تاج کی حیثیت رکھتی ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم ‘ ان کا سردار داڑھی والا ہی ہوتا ہے۔ گویا انسان فطری طور پر داڑھی کو اپنے لیے موجب عزت سمجھتا ہے۔ داڑھی کو کاٹنا مجوسیوں کاطریقہ ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی پیدائش اور بناوٹ کو بدلنا ہے۔ اسی طرح داڑھی مونڈھنا اپنے آپ کو عورتوں کے مشابہ کرنا ہے۔ سیدنا ابن
Flag Counter