Maktaba Wahhabi

51 - 108
بات یہ ہے کہ حقیقت میں تو ہر چیز کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اس نے یہ چیزیں بطورِ امانت ہمیں دی ہوئی ہیں اور ان میں تصرف کا اختیار بھی ہمیں دے رکھا ہے۔ اس اختیار سے دستبردار ہونے اور اس اختیار کو اللہ کی رضا کے تابع بنا دینے کی قیمت یہ ہے کہ اللہ ہمیں جنت عطا فرمائے گا۔ ویسے بھی انفاق فی سبیل اللہ کرنے سے اللہ تعالیٰ مال و دولت میں برکت عطا فرماتے ہیں۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہر دن جس میں بندے صبح کرتے ہیں دو فرشتے آسمان سے اترتے ہیں۔ ان میں سے ایک کہتا ہے۔ اے اللہ خرچ کرنے والے کو بہترین بدلہ عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے۔ اے اللہ! روک کر رکھنے والے کے حصے میں ہلاکت کر[1]۔ انفاق فی سبیل اللہ کے بارے ہی نبی اکرم کا صلی اللہ علیہ وسلم ارشادِ گرامی ہے: «اِتَّقُوا النَّارَ وَلَو بِشقِّ تَمْرَةٍ»[2] (صدقہ کر کے) جہنم سے بچو۔ اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی ہو۔) چوتھا ذریعہ ‘روزہ: روزہ اسلام کی ایسی عبادت ہے جسے اسلام کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ر وزہ اپنے اندر ایک عجیب خصوصیت رکھتا ہے۔ یہ ریا کاری اور دکھاوے سے کوسوں دور اور چشم اغیار سے پوشیدہ ‘ سراپا اخلاص اور عابد و معبود‘ ساجد و مسجود کے درمیان ایک راز ہے۔ اس کا علم روزہ دار اور حق تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں ہوتا۔ جیسے دیگر عبادات نماز‘ حج‘ جہاد وغیرہ کی ایک ظاہری ہیئت و صورت ہوتی ہے۔ روزے کی اس طرح کوئی ظاہری شکل و صورت نہیں جس کی وجہ سے کوئی دیکھنے والا ادراک کر سکے۔ جیسے روزہ رازق و مرزوق اور مالک و مملوک کے درمیان ایک سرّ و راز ہے۔ اسی طرح اس کے ثواب کا بھی عجیب معاملہ ہے۔ اللہ تعالیٰ روزے کا بدلہ اور ثواب جب عطا کرے گا تو فرشوں کو ایک طرف کر دے گا اور اس کا اجر و ثواب خود عطا کرے گا۔ روزے کی فرضیت کا مقصد جو اللہ تعالیٰ نے بتایا وہ یہی ہے کہ تم
Flag Counter