Maktaba Wahhabi

32 - 108
ثواب سمجھ کر کی جاتی ہے اس لیے بدعتی اسے ترک کرنے کا تصور بھی نہیں کرتا جبکہ دوسرے گناہوں کے معاملہ میں گناہ کا احساس موجود رہتا ہے۔ جس سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ گنہگار کبھی نہ کبھی اپنے گناہوں پر نادم ہو کر ضرور توبہ و استغفار کر لے گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ ا راوی ہیں۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا هٰذَا مَالَیْسَ مِنْهُ فَهُوَرَدٌّ»[1] (جس نے کوئی ایسا کام کیا جو دین میں نہیں ہے وہ اللہ کے ہاں مردود ہے۔) روزِ قیامت جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو حوضِ کوثر سے پانی پلا رہے ہوں گے۔ کچھ لوگ حوض پر آئیں گے جنہیں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت سمجھیں گے ۔ لیکن فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بدعات شروع کر دیں۔ چنانچہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے : «سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَیَّرَ بَعْدِیْ»[2] (دور ہوں وہ لوگ جنہوں نے میرے بعد دین کو بدل ڈلا ۔) پس وہ عبادت اور ریاضت جو سنت رسول کے مطابق نہ ہو۔ ضلالت اور گمراہی ہے۔ وہ اذکار اور وظائف جوسنت رسول سے ثابت نہ ہوں بے کار اور لا حاصل ہیں۔ وہ صدقہ خیرات جو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق نہ ہوں بے کار اور رائیگاں ہیں۔ وہ محنت اور مشقت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نہیں جہنم کا ایندھن ہے۔ بدعت کے بُرا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو بدبخت بدعت پیدا کرتا ہے وہ اسے دین کا جزو بتاتا ہے۔ حقیقت میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ دین ابھی نامکمل تھا۔ میں نے اب دین کو پورا کر دیا۔اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اعتراض ہوتا ہے کہ وہ دین کو نامکمل چھوڑ گئے۔ یا انہوں نے دین میں سے کچھ چھپا لیا۔ جو کہ میں اب واضح کر رہا ہوں۔ بدعتی آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق پہنچتا ہے ۔ کہ وہ حکم دیں اور لوگ اسے تسلیم کریں اسی طرح مجھے بھی حق ہے کہ میں حکم دوں اور لوگ اس پر عمل کریں۔ گویا خود منصب ِ ربانی اختیار کرتا ہے۔
Flag Counter