اور پھر وہ ان کے ساتھ چلے بھی لگاتا ہو۔ توحید ربوبیت کا اہتمام کرتے ہیں۔ توحید کی اس قسم کا اقرار تو مشرکین مکہ بھی کرتے تھے۔ تقریبا اکثر لوگ یا سارے لوگ اس توحید الوہیت کی یاد دہانی کو بھول چکے ہیں جس کی دعوت انبیاء کرام اور مرسلین عظام رحمہم اللہ لے کر آئے تھے اور اسی دعوت کی خاطر آسمانوں سے کتابیں نازل کیں۔ توحید کی اس قسم کی دعوت میں کلام کرنے کو یہ لوگ تفرقہ اور اختلاف کے اسباب میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور کتاب وسنت حق اور باطل میں فرق کرتے ہیں۔ اپنی اولادوں کو بغیر تربیت اور رہنمائی کے چھوڑ کر مدتوں گھروں سے غائب رہتے ہیں۔اور بعض لوگوں نے تو اپنی بیویوں کو صرف اس لیے طلاق دیدی تاکہ وہ سارا وقت سفر اور دعوت کے لیے فارغ رہ سکیں۔ جو کوئی حق کا متلاشی ان کو اچھی طرح سے پہچان لیتا ہے وہ ان کا ساتھ چھوڑ کر نکل جاتا ہے اور ان لوگوں کے حقائق کو عوام کے سامنے آشکار کرتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں میں سے شیخ شمری اور شیخ سبیعی؛ شیخ سعد الحصین علامہ شرقاوی اور دوسرے بہت سارے لوگ شامل ہیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ جس جہاد کی تقریباً نصف قرآن میں ترغیب دی گئی ہے اس سے مراد ان کے ساتھ چلے پر نکلنا ہے۔ یہی چیز تو اسلام کے دشمنوں کو مطلوب اور انہیں خوش کرنے والی ہے۔ یہ لوگ اگرچہ ابتدا میں لوگوں کے ساتھ خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر اپنے مخالفین اور معترضین کے ساتھ ان سے بڑھ کر بد اخلاقی کرنے والی کوئی دوسری جماعت نہیں۔ صحیح دعوت کی ابتدا ہمیشہ علم پر مبنی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ﴾(محمد:۱۹) ’’پس جان لیجئے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اوراپنے لیے گناہ سے حفاظت طلب کیجیے۔‘‘ |