اٹھائی تاکہ وہ اسلام اور عیسائیت اور عالم اورپادری کے درمیان قربت کی راہیں پیدا کرے۔ جب یہ آدمی ٹی وی پر آیا تو اس کے ساتھ پادری صموئیل تھا جو کہ دینی بھائی چارے کی کمیٹی کا سربراہ ہے۔پھر اس نے جامعہ ازہر کاعمامہ پادری کے سر پر رکھااور کہا: اب اگر تم چاہو تو کہو کہ یہ دونوں پادری ہیں اور چاہو تو کہو کہ یہ دونوں عالم ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے(مزید لجاجت میں خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے )کہا: ’’جب میں بابا کی باتیں سنتا ہوں تو یوں لگتا ہے جیسے میں سلف صالحین میں سے کسی ایک کی گفتگو سن رہا ہوں۔‘‘ دیکھوعادل حمودہ کی کتاب:قنابل و مصاحف۔ وحدتِ ادیان سے متعلق حسن الترابی کی آرا: ڈاکٹر حسن الترابی نے مجلہ المجتمع شمارہ ۷۳۶ اشاعت۱۹۸۵۔۱۰۔۸ میں اپنے جاری کردہ ایک بیان میں کہا ہے: ملی اتحاد کی وجہ سے ہم ایک اور بڑے اتحاد میں داخل ہوتے ہیں۔ ہم لوگ اسلامی محاذ پر سے اسلام کے ذریعہ ملت ابراہیمی کے ان اصولوں تک پہنچتے ہیں جو ہمیں تاریخ کی روشنی میں عیسائیوں کے ساتھ تاریخی اور ثقافتی ورثہ کی لڑی میں پرودیتے ہیں۔ ہماری تاریخ اعتقادات اور اخلاقیات مشترک ہیں۔ ہم صرف عداوت پر مبنی حسد اور عصبیت ہر گز نہیں چاہتے بلکہ ہم اللہ کی رضامندی کے لیے اخوت پر مبنی ایک بھائی چارے کا رشتہ چاہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿مَا کَانَ اِبْرٰہِیْمُ یَہُوْدِیًّا وَّ لَا نَصْرَانِیًّا وَّ لٰکِنْ کَانَ حَنِیْفًا مُّسْلِمًا وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ﴾(آل عمران:۶۷) ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام نہ تو یہودی تھے اور نہ عیسائی، بلکہ سب سے ہٹ کر اللہ ہی کا حکم ماننے والے تھے، اور وہ مشرک بھی نہیں تھے۔‘‘ یہ تمام منقولات ایک سچے مسلمان کو مجبور کرتی ہیں کہ وہ تمام تر دھڑے بندی اور تفرقہ بازی کو چھوڑ کر صرف ایک سلفی مسلک کو اپنائیں جس پر آج کے دور میں سعودی عرب اور بعض |