ابھارتے ہیں۔اس جماعت کا مؤسس ایک معروف انسان ہے جسے سعودی عرب کویت اور بعض دوسرے خلیجی ممالک سے ملک بدر کیا ہوا ہے۔(اور اب اس نے بریطانیہ میں پناہ لے رکھی ہے)۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو جانے اور ان جانے میں اس کی راہوں پر چل رہے ہیں(اور اس آدمی کا ساتھ دے رہے ہیں)۔ہم اس موقع پر پھر صمیم قلب سے اور انتہائی خلوص سے اپنے نوجوانوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا ساتھ دیں جن کا راستہ سلف صالحین کا راستہ ہے(جو کہ کتاب و سنت کی دعوت پر مبنی ہے)۔ سروریہ کی تأسیس: اس کی بنیاد ایک ایسے آدمی نے رکھی ہے جو کہ اخوان المسلمون سے علیحدہ ہوگیا تھا۔ اور جب اسے بعض عرب ممالک نے ملک بدر کر دیا تو اب اس نے باہر(بریطانیہ میں )اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے۔ اس جماعت کا مکمل تنظیمی ڈھانچہ موجود ہے۔ اور ایک محدود فکری قیادت بھی ہے۔ اور کئی ایک مؤسسات ہیں جو کہ سعودی عرب اور بہت سارے عرب ممالک میں بھی اس کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ اس جماعت کے ساتھ ملنے کیلیے کوئی بیعت وغیرہ نہیں لی جاتی جیسا کہ اخوان المسلمون والے کرتے ہیں۔سروریہ کی نسبت اس کے بانی و مؤسس کی طرف کی جاتی ہے؛ جس کو یہ لوگ بہت بڑا اسلامی مفکر و سکالر شمار کرتے ہیں۔اور اس کی مدح سرائی میں مبالغہ اور غلو سے کام لیتے ہیں۔ اس جماعت کی ابتداء سعودیہ میں ہوئی۔ اس کے بانی نے ان لوگوں کے خیال کے مطابق سلفی عقیدہ اور اخوانی سوچ و فکر کو ملا کر ایک نیا معجون مرکب تیار کیا۔ اور مملکت کے اندر دینی جماعتوں اور ائمہ و خطباء کے ہاں اسے پذیرائی حاصل ہوئی۔ سعودی عرب میں اور سعودیہ سے باہر اس کے ماننے والوں کی اچھی خاصی سر گرمیاں پائی جاتی ہیں۔ان لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس طرح سے اصلاح اور تجدید کا کام کرنا چاہتے ہیں۔ یہ لوگ عوام کو حکومت کے خلاف بغاوت انقلاب اور سختی کے ساتھ پیش آنے کی دعوت دیتے ہیں۔اصلاح اور انتخابات کے نعرے لگاتے ہیں۔ ان لوگوں کی ایک سوچ یہ بھی ہے کہ |