اور عبادت میں شرکیات پھیلے ہوئے تھے۔ حاکمیت کے لحاظ سے یہاں پر افراتفری اور درماندگی کا عالم تھا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک پر امام محمد بن عبدالوہاب کے ہاتھوں دعوت توحید کے ذریعہ احسان فرمایا۔ ان کی مدد و حمایت امام محمد بن سعود رحمہ اللہ نے کی۔ اس کے نتیجہ میں کتاب و سنت کے منہج پر یہ ملک معرض وجود میں آیا۔ نیز آپ نے یہ بھی فرمایا: یہ ملک ہمیشہ اس منہج پر قائم رہا۔ اور جب تک یہ اپنے تاسیسی منہج پر قائم رہیں گے الحمد للہ !اس وقت تک یہ ملک قائم و دائم رہے گا۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ: ’’اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو انسان اس ملک کے منہج پر قدح کرتا ہے یا ان کے متعلق شبہات کو ہوا دیتا ہے یا پھر ان پر تہمتیں لگاتا ہے وہ جاہل انسان ہے۔ ضروری ہوتا ہے کہ اس پر حقیقی صورتحال واضح کی جائے۔ اور میں یہ بات کہتا ہوں کہ:جب سے یہ مبارک ملک معرض وجود میں آیا ہے اس وقت سے ہمیں تہمتوں اور شبہات اور الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہمارے منہج کے متعلق شکوک و شبہات پھیلائے جارہے ہیں۔لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہود و نصاری اور مشرکین کی طرف سے کئی ایک تہمتوں اور شبہات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان شبہات میں سے کچھ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کرتے ہوئے ان کا رد بھی کیا ہے۔بالکل اسی چیز کا سامنا یہ ملک بھی اپنے روز اول سے کررہا ہے۔ ہمیشہ سے ہمارے دشمن حاسدین منافقین اور اہل بدعات و خرافات اس قسم کی حرکتیں کرتے رہے۔ جیسا کہ تاریخ اوریہاں کے علماء اس بات کی گواہی دیتے ہیں؛یہ سلسلہ امام محمدبن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے دور سے آج تک چلا آرہا ہے۔ آپ چاہیں تو محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی کتاب کشف الشبہات اور اس کے علاوہ دوسری کتابیں |