(( فإِنہ من یعِش مِنکم یری اختِلافا کثِیرا وإِیاکم ومحدثاتِ الأمورِ فإنہا ضلالۃ۔ فمن أدرک ذلِک مِنکم فعلیہِ بِسنتِی وسنۃِ الخلفائِ الراشِدِین المہدِیِین عضوا علیہا بِالنواجِذِ۔ وإِیاکم والأمور المحدثاتِ فإِن کل بِدعۃ ضلالۃ)) ’’بے شک تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ خبردار (شریعت کے خلاف)نئی باتوں سے بچنا کیونکہ یہ گمراہی کا راستہ ہے۔ لہٰذا تم میں سے جو شخص یہ زمانہ پائے اسے چاہیے کہ میرے اور خلفائے راشدین مہدیین (ہدایت یافتہ)کی سنت کو لازم پکڑے۔ تم لوگ اس (سنت کو)دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ لو۔ بدعات سے اپنے آپ کو بچانا کیونکہ ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘ حقیقی سلفیت غلو افراط و تفریط اور تساہل و انحلال سے اور ان تمام لوگوں سے بری ہے جو نرمی کے نام پر سستی اور چشم پوشی کی اور جو لوگ دین اور تمسک کے نام پر شدت پسندی کی طرف بلاتے ہیں اور اس طرح کے اقدامات کو اپنا منہج سمجھتے ہیں۔ کل یدعی وصلا بلیلی ولیلی لا تقر لہم بذاکا پھر آپ نے فرمایا: یہ مبارک ملک اپنے روز اول سے امام محمد بن سعود رحمہ اللہ کے ہاتھ پر امام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ سے معاہدہ کی روشنی میں سلفی منہج پر قائم ہوا ہے۔اور ہم آج کے دن تک اس چیز کو اپنے لیے شرف و عزت سمجھتے ہیں۔ ہم فخر کے ساتھ کہتے ہیں: یہ ملک پسماندگی اور فقر و فاقہ کا شکار تھا۔ دینی اور دنیاوی طور پر گروہ بندی میں مبتلا تھا۔ عقیدہ اور عبادت کے لحاظ سے یہ لوگ خلف کی راہوں پر گامزن تھے۔ اس ملک کی نہ ہی کوئی اہمیت تھی اور نہ ہی امن و استقرار۔ یہاں کے اکثر علماء عقیدہ میں خلف کے منہج پر قائم تھے۔ ان لوگوں میں کئی ایک خرافات |