Maktaba Wahhabi

76 - 360
ہے: [لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللّٰه الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ][1]۔ یعنی ’’تم لوگ رسول کے بلانے کو ایسا مت سمجھو جیسا تم میں سے ایک شخص دوسرے کو بلا لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو آڑ میں ہو کر تم میں سے کھسک جاتے ہیں، سو جو لوگ اللہ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ان کو اس سے ڈرنا چاہئے کہ ان پر کوئی آفت آن پڑے یا ان پر کوئی دردناک عذاب نازل ہو جائے۔‘‘ اور فرمایا: [وَإِذَا دُعُوا إِلَى اللّٰه وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم مُّعْرِضُونَ [٤٨]وَإِن يَكُن لَّهُمُ الْحَقُّ يَأْتُوا إِلَيْهِ مُذْعِنِينَ [٤٩]أَفِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ أَمِ ارْتَابُوا أَمْ يَخَافُونَ أَن يَحِيفَ اللّٰه عَلَيْهِمْ وَرَسُولُهُ ۚ بَلْ أُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ [٥٠]إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوا إِلَى اللّٰه وَرَسُولِهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [٥١]وَمَن يُطِعِ اللّٰه وَرَسُولَهُ وَيَخْشَ اللّٰه وَيَتَّقْهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَائِزُونَ][2] یعنی ’’اور یہ لوگ جب اللہ اور اس کے رسول کی طرف اس غرض سے بلائے جاتے ہیں کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کر دیں تو ان میں کا ایک گروہ پہلوتہی کرتا ہے اور اگر ان کا حق ہو تو سرتسلیم خم کیے ہوئے آپ کے پاس چلے آتے ہیں۔ کیا ان کے دلوں میں مرض ہے؟ یا یہ شک میں پڑے ہیں؟ یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم نہ کرنے لگیں؟ نہیں بلکہ یہ لوگ برسر ظلم ہوتے ہیں مسلمانوں کا قول تو جب کہ ان کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کر دیں یہ ہے کہ وہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے سن لیا اور اس کو مان لیا۔ اور ایسے لوگ ہی فلاح پائیں گے۔ اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کا کہنا مانے اور اللہ سے ڈرے اور اس کی مخالفت سے بچے، پس ایسے لوگ بامراد ہوں گے‘‘ – ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بتایا ہے کہ ان کے درمیان فیصلہ کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا جانا اللہ کے فیصلہ کی طرف بلایا جانا ہے کیونکہ ان کے درمیان حاکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اگر انہوں نے رسول اللہ کے حکم کو تسلیم کر لیا تو گویا انہوں نے بافتراض اللہ، اللہ تعالیٰ کے حکم کو تسلیم کر لیا، اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو بتایا ہے کہ رسول اللہ کا حکم بمعنی افتراض حکم خود اس کا حکم ہے -- پس اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو اپنے رسول کی اطاعت کے التزام کا حکم دیا ہے اور ان کو یہ اطلاع دی ہے کہ یہ دراصل اسی کی اطاعت ہے پس – ’’اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ علم بخشا ہے کہ ان پر اللہ اور اس کے رسول کے حکم کی اتباع فرض ہے، اس کے رسول کی اطاعت اسی کی اطاعت ہے اور یہ بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف اسی جل ثناؤہ کے حکم کی اتباع فرض ہے۔‘‘ [3] پس معلوم ہوا کہ کامل اتباع و اطاعت رسول کا نام ہی ’’شریعت‘‘ ہے۔
Flag Counter