Maktaba Wahhabi

66 - 402
پہنچانے کے لیے نہیں آتے۔ سنت نہال سنگھ لکھتا ہے: ’’ کچھ دن پہلے کی بات ہے ، اس سے پہلے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انگلینڈ کے جھاڑودینے والوں کی نگاہ بھی میں وقت کی اتنی زیادہ قیمت ہوسکتی ہے۔ایک انگریز سڑک پر جھاڑو لگارہا تھا۔ میں نے اس کے قریب پہنچ کر پوچھا کیا میں تمہارا فوٹو لے سکتا ہوں ؟۔ اس وقت میرے ہاتھ میں چھوٹا سا کیمرہ تھا، اس میں ایک بہت ہی تیز لینس لگا ہوا تھا۔ اگر میں چاہتا تو بات کی بات میں اس سے پوچھے بغیر ہی اس کا فوٹو لے لیتا۔ پھر بھی میں نے اس سے پوچھ لینا مناسب سمجھا۔ اچھا اب ذرا اس کا جواب سنیے :’’ آپ صرف دو منٹ ٹھہر جائیے ۔ دو منٹ میں بارہ بج جائیں گے۔ اور اس وقت اپنا دو پہر کا کھانا کھانے جاؤں گا ۔ وہ میرا اپنا وقت ہے ۔ اس میں کوئی اعتراض نہیں کرسکتا۔ تب آپپ جتنا وقت شوق سے چاہیں لے سکتے ہیں ۔‘‘ یہاں یہ بتادینا بھی نا مناسب نہ ہوگا کہ جواب دینے سے پہلے اس نے اپنی چاندی کی گھڑی کو دیکھ لیا تھا، جو اس کی کلائی پر بندھی ہوئی تھی ۔ مشہور انگریز فلاسفر ڈیلی کارینگی کہتا ہے کہ: ’’ اوسط درجہ کا انسان دنیا میں صرف وقت کا سرمایہ لے کر آتاہے۔ ہر شخص کو چوبیس گھنٹے ملتے ہیں ۔ نہ وہ اس کوگھٹا سکتا ہے ، اور نہ اس مدت کے بڑھانے پر قدرت رکھتا ہے۔ ‘‘ نیلسن کا قول ہے کہ: ’’میری کامیابی کا راز صرف اس بات میں مضمر ہے کہ میں ہر ایک کام کرنے کے لیے پندرہ منٹ پہلے ہی سے تیار ہو جاتا ہوں ۔ ‘‘ اگر ہم روزانہ اپنے اوقات کوتقسیم کرکے ہر ایک کام کے لیے وقت مقرر کر لیں تواس طرح ہم سب فرائض کو بغیر کسی تکلیف کے انجام دے سکیں گے۔ اس کے ساتھ ہی حکمت اور دانشمندی یہ ہے کہ انسان اپنے اوقات کو ان کاموں میں لگائے ، اور اس کام میں ہاتھ ڈالے جس میں وہ مہارت رکھتا ہو، یا اس میں اس کام کو اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی صلاحیت موجود ہو۔ ورنہ انسان کا وقت بھی ضائع ہوجائے گا اور توانائیاں بھی رائیگاں جائیں گی۔
Flag Counter