راہ پر چلنے میں بھی دنیا اور آخرت میں کامیاب کے راز مضمر تھے ۔ اور انہیں مبعوث کرنے کا مقصد لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا تھا، تاکہ وہ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اس کی پکڑ سے بچ سکیں ۔ ان کے علاوہ باقی جتنے بھی لوگ تھے۔ انہیں جتنا علم اور معرفت حاصل ہوتے ، اور جس قدر ان کا ایمان ہوتا وہ اسی قدر اللہ تعالیٰ کی اطاعت بجالاتے اوروقت کی قدر کرتے۔ اور پھر اسی کے مطابق ان کا نفع اور نقصان بھی ہوتا۔
اگر انسان غور وفکر کرے تو پتہ چلے گا کہ اس کی عمر انتہائی محدود ہے ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو خود بیان فرمایا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
(( أَعْمَارُ أُمَّتِيْ مَا بَیْنَ السِّتِّیْنَ إِلَی السَّبْعِیْنَ ، وَأَقَلُہُمْ مَنْ یُّجَوِزُ ذَلِکَ )) [1]
’’ میری امت کی عمریں ساٹھ سے ستر سال کے درمیان ہوں گی، بہت کم لوگ ہوں گے جو اس سے آگے بڑھیں گے ۔‘‘
حقیقت میں ان ساٹھ سالوں پر غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان میں سے بیس برس تو لڑکپن کے گزر جاتے ہیں ۔ اور باقی چالیس سالہ عمر کا ایک تہائی حصہ نیند کی نذر ہو جاتا ہے ، اور کم از کم ایک تہائی کسب معیشت اور طلب روزگار میں ۔ اس میں سے جو باقی بچتا ہے وہ لے دے کہ چند گھڑیاں ہیں جن میں سے ہم اپنے اہل خانہ کو بھی وقت دیتے ہیں ، اور احباب و رفقاء کو بھی ۔ مہمان نوازی بھی کرتے ہیں ، اور دوستوں یاروں سے میل جول بھی ۔ باقی رہ جانے والے ایک تہائی وقت کو اگر تقسیم کر لیا جائے تو ہمارے پاس اس کا آدھا حصہ رہ جاتا ہے۔ اگر وہ آدھا حصہ ہم اللہ کی راہ میں لگا دیں تو ہماری دنیا بھی بن سکتی ہے ، اور آخرت
|