ہیں جس کے دوران ہم اس دنیا میں زندہ رہتے ہیں ۔ اور وقت ہی انسان اور اس کی زندگی کا مادہ ہے۔ ‘‘[1]
وقت کا مفہوم اجل کے مفہوم کے قریب تر ہے۔ اس سے مراد ایک مقررہ زمانہ اور طے شدہ اجل ہے۔ یہ زمانے کی وہ مقدار ہے جو انسان کو میسر کی گئی ہے۔ اور پھر وہ دار بقا کی طرف کوچ کر جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَلَن يُؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا ۚ وَاللّٰهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ﴿١١﴾ (المنافقون :۱۱)
’’ اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوازے گئے ان لمحات کو پل بھر کے لیے آگے یا پیچھے نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اس میں تبدیلی ممکن ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ ﴿٣٤﴾ (الأعراف :۳۴)
’’ اور ہر ایک امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے۔ جب وہ وقت آجاتا ہے تو نہ تو ایک گھڑی دیر کر سکتے ہیں نہ جلدی۔ ‘‘
اور اس عطیہ خداوندی یعنی عرصہ ء عمر میں کمی بیشی بھی ممکن نہیں ؛ فرمان ِ الٰہی ہے:
﴿وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِ إِلَّا فِي كِتَابٍ ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيرٌ ﴿١١﴾ (فاطر:۱۱)
’’ نہ کسی بڑی عمر والے کوعمر دی جاتی ہے اور نہ اس کی عمر کم کی جاتی ہے مگر کتاب میں (لکھا ہوا) ہے، بیشک یہ اللہ کو آسان ہے۔‘‘
امام ابن حبان اور امام حاکم رحمہ اللہ نے سیّدنا ابو ذررضی اللہ عنہ کے واسطہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
|