Maktaba Wahhabi

51 - 402
﴿فَمَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ‎﴿٨﴾ (الاعراف :۸) ’’ اور جس کا نامہ اعمال بھاری ہوگا ، وہی لوگ کامیابی پانے والے ہیں ۔ ‘‘ اوراپنے اس دنیا میں آنے کے مقصد کو سمجھ کر بصیرت کے ساتھ حاصل کرپائے تاکہ آخرت میں کامیابی نصیب ہوجائے ؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ‎﴿١١٥﴾ (المؤمنون :۱۱۵) ’’اور کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے ، اور تم ہماری طرف نہ لوٹائے جاؤگے۔‘‘ مومن کیسے اپنی زندگی میں دوسروں کے لیے قابل تقلید نمونہ چھوڑ کر جائے ، تاکہ مرنے کے بعد بھی اس کے نیک اعمال میں اضافہ ہوتا رہے ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: « مَنْ سَنَّ فِيْ الإِسْلاَمِ سُنَّۃً حَسَنَۃً فَلَہٗ أَجْرَہَا وَأَجْرَ مَنْ عَمِلَ بِہَا بَعْدَہٗ مِنْ غَیْرِ أَنْ یَّنْقُصَ مِنْ أُجُورِہِمْ شَيْئٌ۔»[1] ’’جس نے اسلام میں کسی اچھے کام کی ابتدا کی،اس کے لیے اس کا اوران تمام کا اجر ہے جو اس پر اس کے بعد عمل کریں گے،اور ان میں سے کسی کے اجر میں کچھ کمی نہیں ہوگی ۔‘‘ ایک اہم مقصد اور بنیادی متحرک ذاتی و انفرادی حیثیت میں امور عبادت و عمل، دعوت و تربیت میں کمزوری ؛ غفلت اور معاشرہ کے بعض افراد یا جماعتوں پر اعتمادکے جمود کو ختم کرنا ہے،تاکہ ہر انسان میں اپنی ذمہ داری خود نبھانے کا احساس پیدا کیا جائے؛اوروہ اس سوچ سے نجات حاصل کرسکے کہ میرے حالات یا وقت اجازت نہیں دیتے کہ میں کوئی مثبت یا تعمیری کام کرسکوں ۔مثال کے طور پر تربیت اور دعوت کے میدان میں ہر انسان کی ایک ذمہ داری ہے ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
Flag Counter