Maktaba Wahhabi

43 - 98
کتب اور ائمۂ دعوت کی کتب اور ان کے فتاویٰ خصوصاً عقائد پر ان کی تحریروں پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے تھے۔ اسی طرح نمازِ فجر کے بعد سے چاشت تک ان کے اوقات طلبِ علم اور مجالسِ علم سے معمور ہوتے تھے۔ پھر نمازِ ظہر سے ذرا پہلے قیلولہ ہوتا تھا۔ پانچوں نمازوں کے بعد علمی دروسں کا اہتمام ہوتا تھا۔ تعلیم و تعلّم کے اس مبارک مشغلے میں سلف صالحین کے طریقے کے مطابق دونوں طرف سے ادب آداب اور عزتِ نفس کی پاسداری کو ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ یوں انھوں نے اپنا گوہرِ مقصود پایا اور ان کی ایک کثیر تعداد مختلف علوم میں امام شمار ہونے لگی، والحمد للّٰه رب العالمین۔ کیا اب حصولِ علم کے اس اصل منہج کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان ہے جس میں قابلِ اعتماد مختصرات کو پڑھایا اور یاد کروایا جاتا تھا؟ اس میں آج کی طرح نوٹس اور محض فہم پر انحصار نہیں کیا جاتا تھا کہ جس کے نتیجے میں آج طلبا حفظ سے بھی محروم ہو گئے ہیں اور فہم سے بھی؟! نیز کیا آج کے دور میں تعلیم و تدریس کو ہر قسم کے غل و غش سے پاک کر کے سلف صالحین کے طریقے پر چلنا ممکن نہیں؟ واللّٰه المستعان حافظ عثمان بن خُرَّزاد رحمہ اللہ (متوفی ۲۸۲ھ) فرماتے ہیں: ’’صاحبِ حدیث کے لیے پانچ چیزیں ضروری ہیں، اگر ان میں سے ایک بھی معدوم ہو گی تو وہ عیب ہو گا: 1 عمدہ فہم، 2 دین داری، 3 حفظ و ضبط، 4 فن میں مہارت، 5 امانت داری جو اس کی پہچان ہو۔‘‘[1] اس کے بعد امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
Flag Counter