Maktaba Wahhabi

24 - 98
اگر طلبِ علم میں خلوصِ نیت مفقود ہو تو وہ افضل ترین اطاعت سے گر کر پست ترین معصیت بن جاتا ہے۔ علم کو کوئی شے اتنا برباد نہیں کرتی جتنا ریا اور دکھلاوا۔ وہ ریائے شرک ہو یا ریائے اخلاص،[1] مثلاً: لوگوں کو سنانے کے لیے کوئی طالب علم یہ کہے کہ میں نے فلاں علم حاصل کیا اور میں نے فلاں چیز حفظ کی۔ چنانچہ طالب علم پر لازم ہے کہ وہ ہر اس چیز سے جو علم کی طلبِ صادق میں نیت کو مکدر کرنے والی ہو، چھٹکارا حاصل کرنے کا التزام کرے، مثلاً: خود نمائی کا شوق، اپنے ساتھیوں پر برتری کی نفسیات اور ایسے کچھ اَغراض و اَعراض، مثلاً: جاہ و منصب، مال و دولت، عظمت و شہرت، کوئی کارِ نمایاں کر کے تعریف کیے جانے کی خواہش اور لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنے کا جذبہ وغیرہ، کیوں کہ اگر ایسی چیزیں نیت میں شامل ہو جائیں تو وہ اسے بگاڑ دیتی ہیں اور علم کی برکت کافور ہو جاتی ہے، لہٰذا آپ پر فرض ہے کہ آپ اپنی نیت کو غیر اﷲ کی خوشنودی کی ملاوٹ سے بچائیں جیسا کہ بچانے کا حق ہے۔ اس باب میں علما کے کچھ اقوال اور واقعات ملتے ہیں جن میں سے کچھ کو میں نے اپنی کتاب ’’اَلتَّعَالُم‘‘ کے پہلے باب میں وضاحت سے بیان کیا ہے۔ یاد رکھیں علما نے ’’ڈھنڈورا مسائل‘‘ (جن سے مقصود صرف شہرت طلبی ہو) سے منع فرمایا ہے۔ کہا گیا ہے کہ عالم کی لغزش پر آناً فاناً ڈھول بج جاتا ہے۔[2] امام سفیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے فہمِ قرآن کی صلاحیت دی گئی تھی، لیکن جب میں نے کسی طرف سے آنے والی مال و دولت کی تھیلی قبول کر لی تو وہ صلاحیت
Flag Counter