Maktaba Wahhabi

97 - 154
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں(حاکم بنا کر)یمن بھیجا تو ارشاد فرمایا:معاذ!’’تمہارے سامنے جب مقدمات پیش کیے جائیں گے توتم اُن کا فیصلہ کیسے کروگے ‘‘؟حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے مطابق۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’’اگر وہ بات اللہ کی کتاب میں نہ ہوئی ‘‘؟حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:تو پھر سنّتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق فیصلہ کرونگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:’’اگر سنّت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ پاؤتو‘‘؟ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کرونگااور کوئی کسر نہیں اٹھا رکھونگا۔راوی کہتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکے سینے پر ہاتھ مارا اور فرمایا:’’تمام تعریفیں اُس ذات کے لیے ہیں جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کویہ توفیق عطاء فرمائی جس سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی راضی ہوئے ۔‘‘ وضاحت: یہ حدیث ضعیف(منکر )ہے ۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سلسلتہ الاحادیث الضعیفہ والموضوعہ،جلد دوم،حدیث نمبر: ۸۸۱ یہ ضعیف حدیث علماء ِ احناف میں اتنی مشہور ہے کہ ہر عالم کسی نہ کسی بہانے اِسے بیان کردیتاہے کیونکہ یہ حدیث انکے لیے اجتہاد کا دروازہ کھول دیتی ہے ۔بنگلور کی آئمہ اربعہ کانفرنس میں سارے مقررین نے اسے بیان کیا ہے اور ایک سال بعد مولانا نے ہمارے سامنے اسی کا سہارا لیا۔جب میں نے ضعیف حدیث کا ذکر کیا توکہنے لگے کہ ہم ضعیف حدیثوں کو بھی مانتے ہیں کیونکہ چارچھ ضعیف حدیثیں مل کر ایک صحیح حدیث کے برابر بن جاتی ہیں ۔ایسے عقل کے گھوڑے دوڑانے والوں سے کیا کوئی علمی بحث کرسکتا ہے ؟آپ خودفیصلہ کرلیں۔اور پھر بقول انہی کے یہ بات مان بھی لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہاں اجتہاد کا مسٔلہ ہی نہیں ہے کیونکہ اجتہاد تو وہاں کیا جاتا ہے جہاں کسی معاملہ میں قرآنی نص یا احادیث
Flag Counter