Maktaba Wahhabi

65 - 154
وقت پڑھتے تھے ؟ فرمایا: دوپہر کی نماز جس کو تم لوگ اولیٰ کہتے ہو اسوقت پڑھتے جب سورج سر سے ڈھل جاتا، اور عصر کی نماز اسوقت پڑھتے کہ ہم سے کوئی شخص نماز کے بعد مدینہ منورہ کے سب سے دور حصے میں اپنے گھر پہنچتا تو ابھی سورج موجود ہوتا تھا اور مغرب کی نماز کا وقت میں بھول گیا ہوں (جبکہ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت کردہ حدیث میں مغرب کا وقت غروب ِآفتاب بیان کیا ہے ۔ (متفق علیہ، باب المواقیت)) اور عشاء کی نماز جسے تم لوگ ’’ عَتَمَہ ‘‘ کہتے ہو دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے نہ سوتے اور اسکے بعد (بلاضرورت) باتیں کرنا نا پسند فرماتے تھے ۔ اور صبح کی نماز سے اس وقت پھرتے تھے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو بہ مشکل پہچان سکتا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے ۔(متفق علیہ، باب المواقیت) یعنی فجر منہ اندھیرے پڑھ لیتے تھے ۔ اور 100آیات پڑھنے میں کتنی دیر لگتی ہے ۔اسکا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے اور آجکل تو آیات بھی مشکل سے 10ہی پڑھتے ہیں اور باہر نکلنے پر ساتھی کو تو کیا پورے محلے کو با آسانی دیکھا جاسکتا ہے ۔ یہی حال باقی نمازوں کا بھی ہے ۔ آپ تجزیہ کرلیں۔ 2۔ آذان اور اِقامت کا بیان : ہمارے ہاں آذان و اِقامت میں کوئی فرق ہی نہیں چھوڑا گیا جبکہ صحیح احادیث کی روشنی میں آذان میں کلمات دوہرے اور اقامت میں اکہرے ثابت ہیں ۔آذان کو خواب میں سننے والے صحابی حضرت عبد اﷲ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق اقامت کے صحیح الفاظ یہ ہیں : ((اَللّٰہُُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ، أَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ، أَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ،حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃِ،حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ ،قَدْقَامَتِ الصَّلوٰۃُ، قَدْقَامَتِ الصَّلٰوۃُ، اَللّٰہُ اَکْبَرُ اللّٰہُ اَکْبَرُ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ)) (صحیح مسلم، آذان و اقامت کا باب) اور اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ
Flag Counter