Maktaba Wahhabi

67 - 154
5۔ تحیۃالمسجدکا اہتما نہ کرنا: اسی طرح تحیۃ المسجد کا معاملہ بھی ہے ۔ اسکا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور پوری صراحت کے ساتھ ہے ۔کسی بھی ہیر پھیر کے بغیر بڑی صاف ہدایات موجود ہیں چنانچہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے : ’’ جب بھی کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے قبل دو رکعت نماز ادا کرے ۔‘‘ (بخاری و مسلم) اور ایک حدیث میں ا ن الفاظ کا بھی اضافہ ہے کہ ’’ چاہے امام خطبہ دے رہا ہو ۔‘‘ اب ان احادیث کے واضح احکام کے بعد آپ اندازہ فرمالیں کہ ہمارے ہاں اول تو یہ لوگ تحیۃ المسجد کے قائل ہی نہیں اور اگر کوئی پڑھتا ہے تو دورانِ جمعہ بیچارے کو پڑھنے نہیں دیتے حالانکہ صحیح حدیث ہم نے بیان کردی ہے ۔ اﷲ انہیں سمجھ اور عمل کی توفیق سے نوازے ۔ آمین۔ 6۔ نماز کی نیّت: انہی مسائل میں سے ایک مسئلہ نماز کے آغاز میں نیت کا بھی ہے جس کے لیے یہ لوگ بڑی شد و مدّ سے فتوے دیتے ہیں کہ ہر نماز کے آغاز میں نیت زبان سے ادا کرنا ضروری ہے کہ فلاں وقت کی نماز، اتنی رکعتیں ،منہ قبلہ شریف کی طرف، پیچھے امام کے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ لیکن یہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہی نہیں ہے اور نہ ہی ا س پر کوئی حدیث ملتی ہے ۔ تمام محدّثین نے بھی شروح ِحدیث میں لکھا ہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے اور صرف دل سے ارادہ کرلینا ہی کافی ہے بلکہ صاف لکھدیا ہے کہ زبان سے نیت قطعاً بدعت ہے ۔ اور اگر اس پر بھی یہ لوگ نہ مانیں اور زبان سے نیت ضروری قرار دیں تو پھر اسے ہٹ دھرمی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے ؟ اور پھر قرآن کی وہ آیت بھی اس پر دلالت کرتی ہے جس میں ارشاد ہے : ’’ کہہ دیجئے کیا تم اﷲ کو اپنی دینداری سے آگاہ کر رہے ہو اﷲ ہر اس چیزسے جو زمین و آسمان میں ہے بخوبی آگاہ ہے اور اﷲ ہر چیزکا جاننے والا ہے ‘ ‘۔ (سورۃ الحجرات، آیت: ۱۶)اور اسی آیت پر فتویٰ ہے سعودی عرب کے مفتیانِ کرام کا بھی۔
Flag Counter