Maktaba Wahhabi

34 - 103
صحیح‘‘ لکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس حدیث کا صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ہونا ہی اس کے صحیح ہونے کو مستلزم ہے۔لیکن اگر کوئی صحتِ حدیث کے درجے کی تعیین کی خاطر لکھ دیتا ہے تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں جس طرح امام البانی نے بعض کتب میں اور استاد محترم شیخ ارشادالحق اثری حفظہ اللہ نے مسند سراج کی تحقیق میں یہ انداز اپنایا ہے۔ ۸: صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے علاوہ جتنی بھی کتب کے مصنفین نے اپنی کتب میں صحیح احادیث کا اہتمام کیا ہے، کسی حدیث کا ان کتب میں ہونا صحیح ہونے کے لئے کافی نہیں ہے کیونکہ ان کتب میں بے شمار ضعیف اور غیر ثابت روایات موجود ہیں، نیز ان کتب کی صحت پر اتفاق بھی نہیں ہے۔وہ کتب درج ذیل ہیں، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، المنتقی لابن الجارود،المختارۃ لضیاء المقدسی، مستدرک حاکم وغیرہ۔ان میں اور دیگر کتبِ حدیث میں موجود حدیث کو لکھنے سے پہلے تحقیق کریں گے جو محدثین کے قواعد کے مطابق صحیح ہو گی، اسے صحیح تسلیم کیا جائے۔البتہ یہ بات درست ہے کہ مذکورہ بالا کتب میں موجود احادیث ان کے مؤلفین کے نزدیک صحیح ہیں اور تخریج میں ان کی تصحیح کی نسبت ان کے مؤلفین کی طرف کرنا درست ہے۔ ۹: حدیث کی تحقیق و تخر یج کر تے وقت اگر کوئی روا یت ضعیف ثا بت ہو جا ئے تو سببِ ضعف بھی لکھنا چا ہیے۔ بعض تاجر قسم کے محقق یہ تو لکھتے ہیں ’’ضعیف ‘‘ لیکن وجہ ضعف نہیں لکھتے اور بعض نا اہل محققین مختلف علما ء کی آ را ء لکھ دیتے ہیں اور راجح تحقیق کی طرف اشا رہ بھی نہیں کر تے مثلا ً اس حدیث کو حا زم علی قاضی نے صحیح کہا ہے اور دکتو ر بسا م نے ضعیف کہا ہے، جبکہ شیخ البا نی نے حسن کہا ہے!! یہ اندا ز انتہا ئی غلط ہے اس سے قا ری کا ذھن منتشر ہو جا تا ہے کہ اب کیا کروں؟ کس کی با ت ما نو ں ؟
Flag Counter