Maktaba Wahhabi

54 - 103
۵: أصح شیء فی الباب۔ اس کا مطلب ہے کہ اس با ب میں سب سے زیادہ صحیح حدیث یہی ہے۔ اس عبارت سے بھی حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتابلکہ محدثین اس اصطلاح کو ضعیف حدیث کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں اور اس وقت وہ مراد لیتے ہیں کہ اس باب میں یہ حدیث سب سے زیادہ راجح یا سب سے کم ضعف والی ہے۔[1] ۶: حدیث صحیح بمقابلہ حدیث صحیح الاسناد، حدیث حسن بمقابلہ حدیث حسن الاسناد زیادہ درجہ والی ہوتی ہے کیونکہ صحیح مطلق طور پر سند اور متن کے صحیح ہونے پر دلالت کرتا ہے جبکہ صحیح الاسنادسے صرف سند کا صحیح ہونا لازم آتاہے۔اس سے متن میں موجود کسی علت کی نفی نہیں ہوتی۔ ۷: یَتَلَقَّنُ: وہ لقمہ قبول کرتا ہے کتبِ جر ح وتعدیل میں کئی راویوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ’’ یَتَلَقَّنُ‘‘ وہ لقمہ قبول کرتا تھا، اس کا مطلب ہے کہ راوی کو کوئی چیز بتائی جائے اور وہ اسے یہ امتیاز کئے بغیر بیان کرتا ہے کہ یہ بات میری ہے یا نہیں۔جو راوی لقمہ قبول کرتا ہے، اس سے یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی روایت بیان نہ کر دے جو اس کی نہیں۔ تدلیس کے متعلق چند اہم اصول: پہلا اصول: قلیل التدلیس راوی کی عن والی روایت صحیح ہوتی ہے الا کہ اس میں تدلیس ثابت ہو جائے۔ ماقبل میں اس کی تفصیل گزر چکی ہے۔اس کی بے شمار مثالیں ملتی ہیں، یہاں ایک مثال پیش خدمت ہے۔اما م ابن شھاب زہری رحمہ اللہ کی قلتِ تدلیس کی وجہ سے محدثین نے ان کی معنعن
Flag Counter