Maktaba Wahhabi

57 - 103
اس پر بہت زیا دہ محد ثین اور ائمہ فن کے اقو ال ملتے ہیں، ہم انہیں پر اکتفا کر تے ہیں۔ تیسرا اصول: تدلیسِ کثیر کرنے والا راوی جب عن سے بیان کرے۔ مدلس راویوں کے مختلف طبقات ہیں، ان کا خلاصہ یہ ہے کہ راوی اگر کثرت سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے مگر جو راوی قلیل التدلیس ہو تو اس کی معنعن روایت مقبول ہو گی الا کہ اس کی روایت میں تدلیس ثابت ہو جائے۔یعنی وہ روایت تدلیس شدہ ہو گی، امام علی بن مدینی فرماتے ہیں:اذا کان الغالب علیہ التدلیس فلا حتی یقول:حدثنا۔‘‘جب تدلیس اس پر غالب آجائے تب وہ حجت نہیں ہو گا، یہاں تک کہ وہ سماع کی صراحت کرتے ہوئے حدثنا (یا سمعت یا أخبرنا )کہے۔[1] امام مسلم نے فرمایا:’’محدثین نے جن راویوں کا اپنے شیوخ سے سماع کا تتبع کیا ہے، وہ ایسے راوی ہیں جو حدیث میں تدلیس سے مشہور ہیں، وہ اس وقت ان کی روایات میں صراحت ِسماع تلاش کرتے ہیں، تاکہ ان سے تدلیس کی علت دور ہو سکے۔‘‘(مقدمہ صحیح مسلم ص:۲۲ ط دارالسلام)یہی موقف محدثین کا ہے۔ حافظ ابن حجر کا سکوت: حافظ ابن حجرکا اپنی کسی بھی کتاب مثلا فتح البا ری، التلخیص الحبیر، الدرایہ، ھدایۃالرواۃ وغیرہ میں حدیث کو بیان کر کے اس پر سکو ت اختیا ر کرنے سے اس حدیث کا حا فظ ابن حجر کے نز دیک صحیح یا حسن ہو نا لا زم نہیں آتا۔ فتح البا ری اور ھدایۃ الر وا ۃ کے مقد مہ میں حافظ ابن حجر نے خود کہا ہے کہ جس حدیث پر میں خا موشی اختیا ر کروں، وہ میرے نزدیک حسن ہے۔ لیکن وہ اس اصو ل پر پو رے نہیں اترے، بلکہ بعض کذاب و متروک راویو ں کی روایا ت پر بھی
Flag Counter