Maktaba Wahhabi

97 - 103
مرسلاً، فإن المتابعۃ تنفع حینئذٍ، و یرفع الحدیث فی حیز الضعف إلٰی أوج الحسن أو الصحۃ۔ وللّٰه أعلم بعض ضعف متابعت سے زائل ہوجاتا ہے، جیسا کہ راوی سییء الحفظ(برے حافظے والا) ہو یا حدیث مرسل ہو تو اس وقت متابعت فائدہ دیتی ہے اور حدیث ضعف کی گہرائیوں سے بلند ہوکر حسن یا صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ [1] معلوم ہوا کہ ابن کثیر تو ابن الصلاح کے اس قول کو حسن لغیرہ کی حجیت میں نقل کررہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابن کثیر کا اپنا موقف بھی یہی ہے کہ حسن لغیرہ حجت ہے۔ ساتواں اشکال: بسا اوقات کسی ضعیف حدیث کی متعد د سندیں ہوتی ہیں یا اس کے ضعیف شواہد موجود ہوتے ہیں، مگر اس کے باوجود محدثین اسے حسن لغیرہ کے درجے میں نہیں لاتے۔ جواب: حسن لغیرہ کی عدمِ حجیت کے بارے میں سب سے بڑی دلیل یہی ہے اور اسی سے وہ لوگوں کو مغالطہ دیتے ہیں۔ کثرتِ طرق کے باوجود حدیث کو مقبول نہ ماننے کی وجوہات کا بیان۔ عدمِ تقویت کے اسباب: ایسی حدیث کے حسن لغیرہ نہ ہونے میں پہلا سبب یہ ہے کہ ناقد سمجھتا ہے کہ اس حدیث کو بیان کرنے میں شاید حدیث کے کسی راوی نے غلطی کی ہے، لہٰذا غلط متابع یا غلط شاہد ضعف کے احتمال کو رفع نہیں کر سکتے۔ اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک حدیث کی دو سندیں ہیں، اس کی ایک سند کے راوی کے بارے میں راجح یہ ہے کہ اس نے سند یا متن میں غلطی کی ہے، یعنی وہ دوسروں کی
Flag Counter