Maktaba Wahhabi

43 - 103
صحیح سند کی شر ائط: کسی بھی سند کے صحیح ہو نے کے لیے ضر ور ی ہے کہ اس میں تین شرطیں پا ئی جا ئیں۔ پہلی شرط: سند متصل ہو یعنی ہر راوی کا دو سرے سے لقاء اور سماع ہو۔ دو سری شر ط: تما م را وی عا دل ہو ں یعنی حقیقی مسلما ن ہو ں، فا سق وفا جر نہ ہوں۔ تیسر ی شرط: تما م را وی حفظ و ضبط کے اعتبا ر سے مضبو ط ہوں۔جب یہ تینو ں شر طیں کسی سند میں پا ئی جا ئیں گی تب وہ سند صحیح ہو گی۔ فائدہ: سند کے صحیح ہو نے سے حد یث کا صحیح ہو نا لا زم نہیں آ تا۔یہ با ت جا ننا نہا یت ضر ور ی ہے کہ جب ایک سند صحیح ہے تو اس سے یہ لا زم نہیں آ تاکہ حد یث بھی صحیح ہو گی، کیو نکہ متن کے صحیح ہو نے کے لیے دو الگ شر طیں ہیں: پہلی شرط: وہ شا ذ نہ ہو دوسری شرط: وہ معلو ل نہ ہو اگر سند صحیح ہے لیکن وہ متن شا ذ ہے تب متنِ حدیث کو شاذ ہی کہا جا ئے گا، مثلا ً حد یث (وا ذ قر أ فأ نصتوا ) فائدہ: بعض محد ثین سند اور متن دونو ں کے صحیح ہو نے پر ’’سند ہ صحیح‘‘کا اطلا ق کر دیتے ہیں، اس طر ح بعض میں ضعف ہو نے کی وجہ سے ’’سند ہ ضعیف ‘‘ کہہ دیتے ہیں خوا ہ اس کا متن صحیح بخاری کا بھی کیو ں نہ ہو ! تحقیق حد یث کے وقت صر ف ایک سند کو پیش نظر رکھ کر حکم نہیں لگا نا چاہیے، بلکہ پہلے اس حد یث کی تمام اسانید کو جمع کیا جا ئے، پھر تمام پر بحث کر تے ہو ئے حد یث پر حکم لگا یا جا ئے، جس طر ح شیخ البا نی کر تے ہیں، اور اگر متن میں کو ئی خرا بی ہے تو اس پر بھی تبصرہ کیا جا ئے۔ اور شو اہد اور تو ابع کو نظر وں میں رکھنا بہت ہی فا ئد ہ مند ہے۔
Flag Counter