Maktaba Wahhabi

55 - 103
روایت قبول کی ہے، جیسا کہ متعدد اہل علم نے تصریح کی ہے، حافظ ذہبی لکھتے ہیں:’’وہ بسا اوقات تدلیس کرتے تھے۔‘‘[1] حافظ علائی نے انھیں دوسرے طبقہ میں شمار کیا ہے اور کہا ہے: ائمہ نے ان کے عن کو قبول کیا ہے۔[2] علامہ سبط ابن العجمی فرماتے ہیں:’’ائمہ نے ان کا عنعنہ قبول کیا ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر نے خود فتح الباری (ج۱۰ص۴۲۷)میں انھیں قلیل التدلیس کہا ہے اور یہی راجح ہے۔ دکتور خالد بن منصور الدریس حفظہ اللہ (الحدیث الحسن:ج۱ص۴۷۹) دکتور عبداللہ دمفو (مقدمہ مرویات الزھری المعللۃ:ج۱ص۵۴۔۵۵) محدث ابو اسحاق الحوینی (بذل ا لاحسان:ج۱ص۱۷،۱۸) دکتور ناصر بن حمد الفھد (منھج المتقدمین فی التدلیس ص:۸۴۔۸۵) دکتور محمد بن طلعت (معجم المدلسین ص:۴۱۶۔۴۲۰) دکتور حاتم شریف العونی (التخریج و دراسۃ الاسانید، ص:۷۷) استاد محترم محدث العصر شیخ ارشادالحق اثری (توضیح الکلام، ج۱ص۳۸۸۔۳۹۰) وغیرہ علماء بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قلیل التدلیس کا عن سے روایت کرنا مضر نہیں ہے۔ دوسرا اصول: جو مدلسین صرف ثقہ راویوں سے بیان کریں تو ان کا عنعنہ مقبول ہو گا یہی موقف راجح ہے اورائمہ فن کا یہی موقف ہے مثلا حافظ ابوالفتح الازدی (الکفایۃ:ج۲ ص ۳۸۶) حافظ ابو علی الحسین بن علی بن زید الکرابیسی (شرح علل الترمذی لابن رجب:ص۵۸۳)
Flag Counter