Maktaba Wahhabi

53 - 103
ابن حبان نے صحیح کہا ہوتا ہے اور حافظ ذھبی خود ان راویوں کو میزان میں مجھول کہہ دیتے ہیں۔ تفصیل کے لئے دیکھئے: [1] ۳: رجالہ رجال الصحیح۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اس حدیث کے راوی صحیح (بخاری یا مسلم یا صحیح حدیث )کے راوی ہیں، اگر کسی حدیث کے متعلق کوئی محدث یہ اصطلاح استعمال کرے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حدیث صحیح ہے، اس جملہ سے صرف صحیح حدیث کی ایک شرط کا ثبوت ملتا ہے کہ راوی ثقہ یا صدوق ہیں اور یہ بھی بات تحقیق کی محتاج ہوتی ہے، کیونکہ بخاری اور مسلم کے کچھ راوی ایسے بھی ہیں جن کی روایت بخاری و مسلم میں ہونے کی وجہ سے صحیح ہے لیکن ان کی حدیث اگر کسی دوسری کتاب میں آجائے تو ضعیف ہوتی ہے۔ فافھم صرف راویوں کے ثقہ وصدوق ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ دیگر چیزوں کی بھی تحقیق کرنا ضروری ہے، مثلا سند کا متصل ہونا، اس روایت کا شاذ اور معلول نہ ہونا۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:’’صحیح کے راوی ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے مروی ہر حدیث صحیح ہو۔‘‘[2] ۴: رجالہ ثقات۔ اس کا معنی ہے کہ اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں، اس سے بھی روایت کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا،کیو نکہ روایت منقطع ہو سکتی ہے، اس طرح کوئی اور علت بھی ممکن ہے، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:’’لا یلزم من کون رجالہ ثقات ان یکون صحیحا۔‘‘راویوں کے ثقہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حدیث صحیح ہے۔[3]
Flag Counter